اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی اندورنی کہانی سامنے آگئی جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہو ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ آپ کو وزیراعظم ہم نے بنوایا ہے، خیبرپختونخوا میں گیس پر پابندی ہے،
گیس بجلی ہم پیدا کرتے ہیں اور پِس بھی ہم رہے ہیں، اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو ہم ووٹ نہیں دے سکیں گے۔ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی اس گفتگو پر وزیراعظم اٹھ کر جانے لگے اور کہا کہ اگر آپ مجھ سے مطمئن نہیں تو کسی اور کو حکومت دے دیتا ہوں۔دوسری جانب سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کیس سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا۔اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے سپریم میں دائر کردہ درخواست میں وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ جمع کرانے کیلئے مزید 3 ہفتے دینے کا استدعا کی گئی تھی۔درخواست میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی کمیٹی شہداء کے والدین سے ایک ملاقات کر چکی ہے والدین سے ایک اور ملاقات جلد متوقع ہے تاکہ انہیں مطمئن کیا جا سکے۔یاد رہے سپریم کورٹ نے 10 نومبر کو وزیراعظم سے سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ خاندانوں کو مطمئن کرنے کے حوالے ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ طلب کی تھی۔عدالت نے گزشتہ ماہ بھی وفاقی حکومت کو تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا منظور کی تھی۔عدالت کے گزشتہ احکامات کے مطابق حکومت نے 10 دسمبر تک وزیر اعظم عمران خان کی دستخط شدہ رپورٹ جمع کروانی تھی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت عظمیٰ میں 3 صفحات پر مبنی رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کے احکامت کے مطابق
وزیر اعظم نے سانحہ اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے طلبہ کے لواحقین سے ملنے اور ان کے مطالبات سننے کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان یا ان کا نامزد کردہ فرد اور وزارت دفاع اور داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹریز کمیٹی کے اجلاسوں میں خصوصی شرکت کریں گے۔10 نومبر کو ہونے
والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے حکم دیا تھا کہ حکومت، متاثرہ والدین کی بات سنے اور 4 ہفتوں کے اندر وزیر اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔سپریم کورٹ رولز کے رول 6 آرڈر 33 کے تحت دائر کردہ حکومتی درخواست میں والدین کے ساتھ کابینہ
کی کمیٹی کی ملاقات کے نتائج کو رپورٹ میں شامل کرنے کی بھی اجازت طلب کی گئی ہے۔اپنے گزشتہ حکم میں عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے عدالت کے سامنے بیان دیا تھا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور والدین کو انصاف کی فراہمی اور واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن
اقدامات اٹھا رہی ہے۔حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس قتل عام کے ذمہ داروں اور اس حوالے سے کوتاہی برتنے والوں سے ضرور نمٹے گی۔یہ دیکھا گیا ہے کہ اے پی ایس طلبہ کے والدین اپنے بچوں کی موت کو قبول کرنے سے قاصر تھے اور انہوں نے بعض افراد کو فرائض سے غفلت کا ذمہ
دار ٹھہرایا۔20 اکتوبر کے حکم نامے میں کہا گیا تھا جاں بحق طلبہ کی ماؤں نے یہ شکایت کی ہے کہ اے پی ایس پشاور کی سیکیورٹی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں اپنی ذمہ داری سے غفلت برتنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اس غفلت کے نتیجے میں 147 معصوم بچوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔