جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

بھارت کو2011 کا ورلڈ کپ صرف دھونی کے چھکے نے نہیں جتوایا، 10 سال بعد گوتم گھمبیر کے حیرت انگیز انکشافات

datetime 2  اپریل‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی (این این آئی)بھارتی کرکٹر گوتم گھمبیر نے کہا ہے کہ2011 میں ہم نے ورلڈ کپ صرف دھونی کے چھکے کی وجہ سے نہیں جیتا، اس میں یوراج سنگھ کا بھی اہم کردار تھا جس کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔خیال رہے کہ بھارت نے2 اپریل2011 میں سری لنکا کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا تھا۔ گوتم گھمبیر نے سری لنکا

کیخلاف فائنل میں 97 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔انہوں نے کہا کیا آپ کو لگتا ہے کہ صرف ایک شخص نے ہمیں ورلڈ کپ جتوایا؟ اگر کوئی فرد ورلڈ کپ جیت سکتا تو بھارت اب تک تمام ورلڈ کپ جیت سکتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ، ہندوستان میں صرف چند لوگوں کو پذیرائی دی جاتی ہے اور میں نے کبھی اس پر یقین نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ ٹیم کے کھیل میں، افراد کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے،یہ سب کچھ مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے، کیا آپ ظہیر خان کو بھول سکتے ہیں؟ فائنل میں ان کا پہلا اسپیل ، جہاں اس نے لگاتار تین میڈن بولڈ کیے؟کیا آپ یہ بھول سکتے ہیں کہ یوراج سنگھ نے آسٹریلیا کے خلاف کیا کیا؟ کیا آپ سچن ٹنڈولکر کے جنوبی افریقہ کے خلاف سو کو بھول سکتے ہیں؟ہم لگ بھگ ایک چھکے کو کیوں یاد کرتے رہتے ہیں؟اگر ایک چھکا آپ کو ورلڈ کپ جیتوا سکتا ہے، تو میرے خیال میں یوراج سنگھ کو ہندوستان کیلئے چھ ورلڈ کپ جیتنا چاہئے تھے کیونکہ انہوں نے ایک اوور میں چھ چھکے مارے(ڈربن میں 2007 کے ورلڈ ٹی ٹونٹی میں انگلینڈ کے خلاف)۔کوئی یوراج کے بارے میں بات نہیں کرتا ہے،وہ 2007 میں (باضابطہ طور پر شاہد آفریدی تھے) اور 2011 کے ورلڈ کپ میں ‘مین آف دی ٹورنامنٹ’ تھے لیکن ہم اسی ایک چھکے کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔انہوں کہا کہ ورلڈ2011 کی جیت

میں13 یا14 لوگوں کی محنت تھی۔منف پٹیل، میں ، ہربھجن سنگھ ، ویرات کوہلی ، جنہوں نے پہلے میچ میں سنچری بنائی۔سریش رائنا ، جنہوں نے پاکستان کے خلاف اہم اننگز کھیلی۔ ورلڈ کپ کی جیت میں ان تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی شامل تھی۔جب میں 10 سال بعد سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ‘مین آف دی ٹورنامنٹ’ ہونے کے

باوجود یوراج سنگھ کو بھی زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔لوگ اس کے بارے میں بات نہیں کریں گے ، لیکن لوگ یقینی طور پر اس ایک چھکے کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دھونی نے مارا۔یوراج نے بہت ساری وکٹیں حاصل کیں اور ورلڈکپ کے پانچویں بہترین بالر رہے۔ میرے نزدیک یوراج دونوں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا غیر منقول ہیرو ہے۔ ان کے بغیر ہندوستان 2011 ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا تھا۔ٹیم نے موہالی میں پاکستان کے خلاف سیمی

فائنل کے دباؤ کا مقابلہ کیسے کیا؟ اس سوال کے جواب میں گوتم نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے اچھا کھیلا ، لیکن پھر بھی ہم اس میچ کو جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ہمیں جو 260 نمبر ملا اس سے کہیں زیادہ رنز ملنا چاہئے تھا۔ ہم نے سریش رائنا کی اننگز کی وجہ سے یہ میچ جیت لیا۔مجھے ان تمام چیزوں پر یقین نہیں ہے کہ پاکستان کیساتھ کھیلنا زیادہ جذباتی ہے ، یا دباؤ کا کھیل ہے۔ آخر میں ، آپ جرسی کا رنگ نہیں دیکھتے ہیں۔ آپ کرکٹ دیکھتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…