اسلام آباد(آئی این پی) پاکستان کو پہلی بار عالمی چیمپئن بنے 25 سال مکمل ہو گئے ، 1992 کے ایونٹ میں جہاں بڑے بڑے اتار چڑھاؤ آئے ، قومی ٹیم نے بھی بڑے ہی نشیب و فراز دیکھ لیے۔ 25 مارچ 1992 وہ خوش قسمت دن تھا جب پاکستان کرکٹ کا فاتح عالم بنا ، میلبورن کے تاریخی میدان میں بابائے کرکٹ انگلینڈ کو فائنل میں 22 رنز سے شکست ہوئی ،
بارش سے متاثرہ گروپ میچ کا ایک پوائنٹ بارش کا قطرہ ثابت ہوا ، انجری کے باوجود ٹیم کپتان عمران خان نے ہی بیٹنگ کا محاذ سنبھالا، 72 رنز سے قومی ٹیم کی پوزیشن بہتر بنائی۔ انگلینڈ کو 250 رنز کا ہدف دیا ، مشتاق احمد نے 41 رنز کے عوض 3 شکار کیے لیکن سوئنگ کِنگ وسیم اکرم کی سپر بولنگ نے وِننگ ٹریک دکھایا ، ایلن لیمب اور پھر کرس لوئس لیفٹ آرم فاسٹ بولر کے دو خطرناک اِن سوئنگ بال کا نشانہ بنے جس سے میچ کا پانسہ پلٹ گیا اور پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا ، عمران نے ورلڈکپ جیتنے کا خواب پورا ہوتے ہوئے کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ 1996 میں دفاعی چیمپئن پاکستان کو کوارٹر فائنل میں روایتی حریف بھارت سے شکست ہوئی ، 1999 میں رنر اپ بنے ، 2003 اور پھر 2007 کے ورلڈکپ ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے ، دیکھئے قسمت کا کھیل کہ سلور جوبلی منانے والی قومی ٹیم کو آج براہ راست ورلڈکپ میں کوالیفائی کرنے کے لیے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ 25 سال گزر جانے کے باوجود ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی اس تاریخی واقعے کو جیسے کل ہی بات سمجھتے ہیں۔ بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویوز میں ان کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ان کے
کیرئیر میں کئی فتوحات آئیں لیکن اس ورلڈ کپ کی جیت کی برابری کوئی دوسری جیت نہیں کرسکتی۔ عمران خان نے کہا کہ ورلڈ کپ کے لیے جو ٹیم منتخب کی گئی تھی وہ اچھی تھی لیکن بدقسمتی سے دو میچ ونر کھلاڑی سعید انور اور وقار یونس ان فٹ ہوگئے تھے۔ عام طور پر ٹیم میں چار یا پانچ کھلاڑی ہی میچ ونر ہوا کرتے ہیں لیکن جب دو کھلاڑی باہر ہوجائیں تو
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس سے کتنی مشکلات ہوسکتی ہیں۔ ٹیم جب ورلڈ کپ میں پہنچی تو اس وقت جاوید میانداد بھی فٹ نہیں تھے اور میں بھی ان فٹ تھا لیکن اس ٹیم کی فائٹنگ اسپرٹ کی داد دینی ہوگی کہ اس نے اس مقام سے جیت کا سفر شروع کیا جہاں عام طور پر ٹیمیں ہمت چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی اس ٹیم کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ جاوید میانداد نے کہا کہ کسی بھی ملک کے لیے
اس سے زیادہ فخر کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی بھی کھیل میں عالمی چیمپین بنے۔ پاکستان ہاکی اور سکواش میں ورلڈ کپ ونر تھا جس کے بعد ہم نے کرکٹ میں بھی یہ مقام حاصل کیا جس سے اس کے وقار میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ جیت قوم کے چہرے پر خوشی لے آئی تھی۔ ہم کھلاڑی بھی خوش تھے کہ اس جیت نے دنیا کو یہ دکھادیا تھا کہ
پاکستان کی کرکٹ اس معیار کی ہے کہ یہ عالمی کپ جیت سکتی تھی۔ وسیم اکرم نے کہا کہ میرے لیے ورلڈ کپ کی یہ جیت کسی خواب کی تعبیر کی طرح تھی کہ ورلڈ کپ کے فائنل میں کوئی ایسی کارکردگی دکھاؤں جس سے کھیل کا نقشہ بدل جائے اور دنیا مجھے یاد رکھے اور لگاتار دو گیندوں پر دو وکٹوں نے وہ کردکھایا۔ آج طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود کوئی بھی ان دو گیندوں کو
نہیں بھلاسکا ہے۔ معین خان نے کہا کہ فائنل کا ٹرننگ پوائنٹ وسیم اکرم کی دو گیندوں پر ایلن لیمب اور کرس لوئس کی وکٹیں تھیں جس کے بعد ہمیں بہت زیادہ یقین ہوگیا تھاکہ ہم یہ ورلڈ کپ جیت جائیں گے اور کوئی بھی دنیاوی طاقت پاکستان کو اس جیت سے نہیں روک پائے گی۔انضمام الحق نے کہا کہ میرے کیرئیر کا یہ ابتدائی دور ہی تھا اور آج پچیس سال گزرجانے کے باوجود
ہر کوئی میری سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف ساٹھ رنز کی بات کرتا ہے حالانکہ میں نے اپنے ون ڈے کریئر میں گیارہ ہزار سے زیادہ رنز بنائے ہیں لیکن لوگ ان ہزاروں رنز کے بجائے اس ایک اننگز کو ابھی تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔ دراصل آپ کی زندگی کے کچھ پہلو، کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جنہیں نہ آپ بھول سکتے ہیں نہ لوگ۔ رمیز راجہ نے کہا کہ اہم کھلاڑیوں کا
ورلڈ کپ سے پہلے ہی ان فٹ ہوجانا اور پھر ایک کے بعد ایک میچ ہارنا، ایسے میں پاکستانی ٹیم کا ورلڈ کپ کا جیت جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔عام طور پر جب ٹیم ہارتی ہے تو ڈریسنگ روم میں اس کے اثرات نمایاں دکھائے دیتے ہیں اور ٹیم بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن ورلڈ کپ میں ایسا بالکل نہیں ہوا جس کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی لیڈرشپ تھی۔ عاقب جاوید نے کہا کہ
عمران خان نے صرف ایک ہی بات ہم تمام کھلاڑیوں سے کہی تھی کہ خوفزدہ ہوکر نہ کھیلیں۔خوف کے بغیر کھیلنے کے اسی سبق نے کھلاڑیوں کو ابتدائی میچز میں شکست کے باوجود مایوس نہیں ہونے دیا تھا۔ فائنل سے پہلے ہمارے ذہن بالکل واضح تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم ورلڈ کپ جیتیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گراہم گوچ کا کیچ لے کر میں جسطرح میدان میں خوشی سے دوڑا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔