ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آصف کی بیماری سے شعیب کی ریٹائرمنٹ تک

datetime 12  فروری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آصف کی بیماری سے شعیب کی ریٹائرمنٹ تک
12 فروری 2015

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ورلڈ کپ آئے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کسی بھی مشکل صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔موجودہ عالمی کپ کو ہی لے لیجیے۔ سعید اجمل اور محمد حفیظ کا مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آنا، فاسٹ بولر جنید خان اور پھر محمد حفیظ کا بھی ان فٹ ہو جانا۔ یہ پاکستانی ٹیم کے لیے ایک کے بعد ایک دھچکہ ہیں۔ماضی میں بھی عالمی کپ کے موقع پر کئی ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
آصف اقبال کی بیماری (1975)

آصف اقبال پہلے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔آسٹریلیا کے خلاف پہلے میچ میں انھوں نے ڈینس للی، جیف تھامسن اور میکس واکر کے خطرناک پیس اٹیک کے سامنے نصف سنچری سکور کی لیکن پھر انھیں اپنڈکس کی تکلیف کے سبب ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔اس تکلیف کی وجہ سے وہ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے خلاف اگلے دونوں میچ نہ کھیل سکے۔ان دونوں میچوں میں ماجد خان نے ٹیم کی قیادت کی اور پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز کےخلاف اہم میچ نہ جیت سکی اور پہلے مرحلے سے ہی اس کی وطن واپسی ہو گئی۔
عمران خان بولنگ کے قابل نہ رہے(1983)

عمران خان نے 83-1982 میں بھارت کے خلاف ہوم سیریز میں انتہائی تیز رفتار بولنگ کرتے ہوئے 40 وکٹیں حاصل کی تھیں۔اسی دوران وہ پنڈلی میں سٹریس فریکچر میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے وہ تقریباً دو سال بولنگ نہ کر سکے۔1983 کے عالمی کپ میں بھی وہ بلے باز کی حیثیت سے کھیلے اور انھوں نے ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کی پہلی سنچری سکور کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن ان کا بولنگ نہ کر پانا پاکستانی ٹیم کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔
وقاریونس اور سعید انور ان فٹ (1992)

عمران خان کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 1992 کا عالمی کپ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی لیکن ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل میں بری طرح گھری ہوئی تھی۔فاسٹ بولر وقار یونس اس زمانے میں اپنی تیز رفتار بولنگ کی وجہ سے شہ سرخیوں میں تھے، جبکہ سعید انور کی بیٹنگ بھی زوروں پر تھی لیکن عالمی کپ سے قبل یہ دونوں ان فٹ ہوگئے اور عالمی کپ کھیلنے سے محروم رہے۔
وسیم اکرم کوارٹرفائنل سے پہلے ان فٹ (1996)

وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم 1996 کے عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں پہنچی جہاں اس کا مقابلہ بھارت سے تھا۔ٹاس سے کچھ دیر قبل وسیم اکرم نے ٹیم کو مطلع کیا کہ وہ کندھے میں تکلیف کے سبب یہ میچ نہیں کھیل رہے۔ان کے اچانک نہ کھیلنے پر کئی سوالات اٹھے اور اس میچ کا تفصیل سے ذکر جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست (1999)

تین برس بعد پاکستان نے وسیم اکرم کی قیادت میں ورلڈ کپ کا فائنل تو کھیلا لیکن اس سے قبل گروپ مرحلے میں بنگلہ دیش کے خلاف اس کی شکست نے سب کو چونکا دیا۔
گذشتہ ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں بھارت کے خلاف شکست کی طرح اس نتیجے کو بھی شک کی نظر سے دیکھا گیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو عالمی کپ کے بعد جسٹس بھنڈاری پر مشتمل کمیشن بنانا پڑا۔
کپتان بنانے کے بعد بھی تبدیلی پر غور (2003)

پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2003 میں وقار یونس کو ورلڈ کپ کے لیے کپتان مقرر کیا تھا لیکن کھلاڑیوں کی اکثریت وسیم اکرم کو کپتان دیکھنا چاہتی تھی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیا بھی وسیم اکرم کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن انھیں کپتان بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جسٹس قیوم رپورٹ بن گئی تھی۔اس صورت حال میں ٹیم دو حصوں میں بٹ گئی اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ وہ پہلے راؤنڈ سے آگے نہ بڑھ سکی اور اس کے ساتھ ہی وقاریونس اور وسیم اکرم کے بین الاقوامی کریئر بھی اختتام کو پہنچ گئے۔
باب وولمر کی موت (2007)

کرکٹ کی دنیا میں اس سے زیادہ بھیانک واقعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ کوئی ٹیم اپنے سے کمزور ترین حریف سے شکست کھائے اور اس کا کوچ اس شکست کے فوراً بعد موت کے منہ میں چلا جائے۔2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے اگلے ہی دن پاکستانی کوچ باب وولمر کی موت کی خبر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ان کی موت زبردست ذہنی دباؤ کا نتیجہ تھی یا انھیں ہلاک کیا گیا اس بارے میں طرح طرح کی خبریں آتی رہیں لیکن ان کی موت کے بعد پاکستانی ٹیم کو جمیکا کی پولیس کی تحقیقات کی شکل میں سخت ذہنی کرب سے گزرنا پڑا۔
شعیب اختر کی ریٹائرمنٹ (2011)

2011 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف پالیکیلے میں کھیلے گئے میچ سے قبل کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ شعیب اختر اپنا آخری ون ڈے انٹرنیشنل کھیل رہے ہیں۔اس میچ میں ان کی بولنگ پر وکٹ کیپر کامران اکمل نے راس ٹیلر اور سکاٹ سٹائرس کے کیچ ڈراپ کر کے صورت حال ہی بدل دی جس پر شعیب اختر غصے میں آ گئے۔انھوں نے پانی کے وقفے کے دوران کامران اکمل کو لات مار دی جس پر منیجر انتخاب عالم نے ان پر جرمانہ عائد کر دیا۔اس میچ کے بعد مایوس شعیب اختر نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ ورلڈ کپ کے اختتام پر بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ تاہم ٹیم منیجمنٹ نے ان کی سیمی فائنل میں بھارت کے خلاف کھیلنے کی خواہش پوری نہ ہونے دی۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…