حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبرؓ بھی جب شہید ہو گئے تو حضرت امامؓ نے اہل بیت کو تسلی و تشفی دے کر خود میدان میں آنے کا ارادہ کیا، ایک بار خیمہ سے رونے کی آواز سنی، آپ خیمہ کی طرف پھرے اور حال دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ طفل شیر خوار حضرت علی اصغر پیاس سے بے چین ہیں۔
چھ مہینے کی عمر میں یہ مصیبت کہ تین دن سے بھوک اور پیاسے ہیں، زبان منہ کے باہر نکل پڑی ہے، مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں، حضرت امام نے فرمایا: علی اصغر کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت زینبؓ لے کر آئیں، آپؓ نے علی اصغر کو گود میں لیا اور میدان میں ظالموں کے سامنے لا کر فرمایا۔ ’’اے قوم! تمہارے نزدیک اگر مجرم ہوں تو میں ہوں، مگر یہ میرا ننھا بچہ تو بے گناہ ہے، خدارا ترس کھاؤ اور اس میرے ننھے مسافر سید بیکس مظلوم کو تو چلو بھر پانی پلا دو۔ اے قوم! آج جو میرے اس ننھے مسافر کو پانی پلائے گا میرا وعدہ ہے کہ میں اسے حوض کوثر پیر سیراب کروں گا۔‘‘ حضرت امام حسینؓ کی یہ درد ناک تقریر سن کر بھی ان ظالموں کا دل نہ پسیجا اور ایک ظالم حرمل ابن کاہل نے ایک ایسا تیر مارا جو حضرت امام کی بغل سے نکل گیا آہ ایک فوارہ خون کا اس ننھے شہید کے حلق سے چلنے لگا اور ننھے شہید کی آنکھیں اپنے والد کے چہرے کی طرف تکتی کی تکتی رہ گئیں اور امام نے بے قرار ہو کر اپنی زبان انور ننھے کے منہ میں ڈال دی اور ننھے سید نے وہیں اپنے ابا کی گود میں شہادت پا لی اور آپ اس کی ننھی سی لاش مبارک لے کر خیمہ میں آئے اور ماں کی گود میں دے کر فرمایا: لو علی اصغر بھی حوض کوثر سے سیراب ہو گئے اس ننھی نعش کو دیکھ کر اہل بیت بے قرار ہو گئے اور حضرت امام حسینؓ کی مبارک آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔