شیخ سعدیؒ سفر کر رہے تھے ، ان کیساتھ ان کا گدھا بھی تھا۔ ایک گائوں میں پہنچے تو رات پڑ گئی ۔ سردی کے دن تھے ، رات بسر کرنے کا ٹھکانہ تلاش کرنے لگے ۔ گائوں والوں میں سے کوئی ٹھکانہ دینے پر رضا مند نہ ہوا۔ آخر ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ، گھر والے نے کہا :
’’ میری بیوی دروازہ میں تڑپ رہی ہے ، بچہ نہیں ہوتا ۔ اگر تو دعاکرے تو جگہ دوں گا ‘‘۔ شیخ سعدیؒ مان گئے ۔ انہیں کمرہ مل گیا، پھر انہوں نے کاغذ کے پرزے پر ایک تعویز لکھا اور گھر والے سے کہا ’’ اسے مریضہ کی ناف پر باندھ دے ۔ تعویز باندھتے ہی بچہ ہو گیا۔ اگلی صبح شیخ سعدیؒ چلے گئے لیکن گائوں والوں نے تعویذ سنبھال کر رکھ لیا ۔گائوں میں جب کسی کو زچگی کی تکلیف ہوتی تو وہی تعویذ لے جا کر باندھ دیتے ۔ تکلیف رفع ہو جاتی ۔ گائوں کے مولوی کو اس بات پر بڑا غصہ آیا ۔ اس نے سوچا کہ اگر تعویذ پر لکھ ہوئی آیت کا پتہ چل جائے تو اسے بڑا فائدہ ہو گا۔ مولوی نے جھوٹ موٹ کا بہانہ تراشا اور تعویذ مانگ کر لے گیا ۔ اسے کھولا تو لکھا تھا : ’’یا اللہ ! میں اور میرا گدھ اب آرام سے ہیں ۔ ٹھکانہ مل گیا ۔ باقی تو جانے اور تیرا کام جانے‘‘۔