حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک کے پاس ایک بیش قیمت موتی تھا جو ان کے والد عبدالملک نے ان کو دیا تھا۔ ایک روز حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنا زیور یا تو بیت المال میں دے دو یا مجھے ناپسند کرو تاکہ میں تمہیں علیحدہ کر دوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ میں اور تمہارا زیور ایک گھر میں ہوں۔ آپؓ کی زوجہ محترمہ نے جواب دیا کہ میں آپؓ کو ترجیح دیتی ہوں، آپ میرا تمام زیور بیت المال میں داخل کر دیجئے۔ چنانچہ آپؓ نے ان کا تمام زیور بیت المال میں جمع کر دیا اور جب آپ کا انتقال ہو گیا اور
یزید بن عبدالملک تخت پر بیٹھا تو اس نے آپؓ کی حرم محترم سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کا سارا زیور بیت المال سے واپس دے دیا جائے۔ آپ نے جواب دیا کہ جو چیزیں خوشی سے ان کی حیات میں دے چکی ہوں، وہ ان کے انتقال کے بعد بھی واپس نہ لوں گی۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 122)۔ اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خدا ترس حاکم دنیوی مال سے کبھی محبت نہیں کرتے اور وہ ہر حال میں اپنی رعایا کے نفع و فائدہ کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ ’’بیت المال‘‘ کا معنی ’’گھر کا مال‘‘ سمجھتے ہیں وہ بڑے ہی ناعاقبت اندیش ہیں۔