میرے خیال میں حکمرانوں کا کام اپنی عوام کا حتی المقدور خیال رکھنا اور انہیں جینے کے نت نئے طریقے بتانا ، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ، انہیں آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو دینا ہے نہ کہ ان پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دینا کہ انہیں اپنا آپ اس قدر چھوٹا لگنے لگے کہ وہ جینے کی آس اپنے دل میں ہی چھپائے دنیا ئے فانی کو خدا حافظ کہہ دیں۔ کیا واقعی ہمیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا ؟
کیا واقعی ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ بحیثیت حکمران کسی بھی قسم کوئی فیصلہ لینے کیلئے ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر اموات کی ضرورت ہے ؟۔ یقیناًایسا نہیں ہے ۔ ملک بھی چل رہا ہے ۔ کام بھی ہو رہے ہیں، ہاں بس ایک کمی ضرور ہے کہ ا ہلِ اقتدار کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ضرور کر رہے ہیں ۔ عوام کی آواز سننے میں انہیں ضرور مشکل در پیش ہے ورنہ اس قدر معصوم التجاؤں سے تو عرش بھی ہل جاتا ہوگا ، ہم تو پھر انسان ہیں ۔ یہ معصوم التجا کسی اور کی نہیں ، میرے ہی ملک کی ایک معصوم بچی کی ہے جو اپنے انکل شہباز شریف سے آس، امید لگائے بیٹھی ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ قدرت سے اس کی داد رسی کریں گے ۔اس کی بات سنیں گے اور اس کے مسئلوں کو حل کریں گے ۔ وہ کہتی ہے ۔۔۔! محترم انکل شہباز شریف ۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔۔۔! میں عظمیٰ نثار آپ کو خط لکھ رہی ہوں ۔میری عمر گیارہ سال ہے ۔چکوال میں جو سرکاری بند ہے میں اس کے پاس رہتی ہوں ۔یہاں پر سرکاری گاڑیاں سارا دن گندگی پھینکتی رہتی ہیں اور ادھر سارا دن آگ جلتی رہتی ہے۔ میری داد ی اماں ٹی بی کی مریضہ ہیں۔ داد ابو بہت کھانستے تھے مگر اب وہ مر گئے ہیں۔ دھواں مجھے ساری رات سونے نہیں دیتا ۔ چھوٹا ننھا چھ ماہ کا ہے، اس کی آنکھوں سے پانی آتا ہے ، رات کو بہت کھانستا ہے ، میری امی مجھے بہت ڈانٹ دیتی ہیں کہ تم سوتی کیوں نہیں ہو۔ میری امی تو رات کو جاگتی رہتی ہیں۔
میری سہیلی شمیلا سرکاری بند کے دوسری طرف رہتی ہے ، اسے سکول میں نکسیر آتی ہے۔مس اس کے ابو کو ٹیلی فون کرتیں ہیں وہ اسے سکول سے گھر لے جاتے ہیں ، شمیلا کہتی ہے کہ ایک دن انکل شریف اس سڑک سے گزریں گے تو دھواں بند کرادیں گے۔ میں یہ خط اپنے پیسوں سے بھیج رہی ہوں۔میں نے یہ خط ساجد کو دیا ہے کہ وہ آپ کو ٹی سی ایس سے بھیجیں گے۔
عظمیٰ نثار ، محلہ سرکاری بند، چکوال