نبی کریم ﷺ ایک سفر سے واپس آ رہے تھے،ایک جگہ آپ نے پڑاؤ ڈالا، بستی قریب تھی،ایک عورت تھی جس کا تنور تھا،اس نے لشکر کی روٹیاں بھی پکائیں،جب پکا کر فارغ ہو گئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہنے لگی :میں تمہارے صاحب سے بات کرنا چاہتی ہوں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اُسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے۔
کہنے لگی اللہ کے پیارے رسول !ﷺ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔فرمایا : پوچھو! کہنے لگی:میں ماں ہوں،تنور میں روٹیاں لگاتی ہوں،میرا ایک چھوٹا سا بچہ ہے،میں اس کو آگ کے قریب آنے نہیں دیتی کہاس کو کہیں گرم ہوا نہ لگ جائے،خود آگ میں ڈبکیاں لگاتی ہوں،روٹی لگانے اور نکالنے کے لیے۔لیکن میں اپنے بچے کو گرم ہوا کا لگنا بھی پسند نہیں کرتی،تو میں نے آپ سے سُنا تھا کہ ساری دنیا کی ماؤں کی محبتوں کو جمع کر دیا جائے،اس سے ستر گناہ زیادہ بندوں سے اللہ پاک محبت کرتے ہیں تو اللہ پاک بندے کو جہنم میں جانا کیسے پسند فرمائیں گے؟حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بات سُن کر سر جھکایا، مبارک آنکھوں میں آنسو آنے لگے،روتے رہے،روتے رہے،حتیٰ کہ جبرائیل ؑ اللہ کا پیغام لے کر آئے،میرے محبوب! اس عورت کو بتا دیں:”وما ظلمھم اللہ ولکن کانوا انفسھم یظلمون۔”ترجمہ:”اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا،انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا”اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری،کیوں کہ اللہ تو چاہتے ہیں کہ یہ بچ جائیں،لیکن بات یہ ہے کہ توبہ نہیں کرتے، توبہ کی طرف آتے ہی نہیں،بلکہ رب کی ماننے کے بجائے شیطان کی مانتے پھرتے ہیں،اور توبہ کو ضائع کرتے ہیں، بھول جاتے ہیں،تو یہ تو اپنے عمل کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔