اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) کبھی کبھار انسان کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اسے حیران کر دیتے ہیں، ماضی کا کوئی ایسا کردارجسے آپ بھول چکے ہیں اچانک آپ کے سامنے کسی فرشتے کی مانند آکھڑا ہوتا ہے اور آپ کی تمام مشکلات اور پریشانیاں یکسر ختم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ بنگلہ دیشی ببلو شیخ کے ساتھ بھی پیش آیا جو ایک سائیکل رکشہ چلاتا ہے۔
ببلو شیخ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کر رکھے ہیں جبکہ ببلو اور اس کی بیوی بیٹی کی شدید خواہش رکھتے تھے۔اور ایک دن ببلو شیخ کو اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر بیٹی سے نواز دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک صبح ایک باپ نےببلو کواس کی بیٹی کو کالج بھیجنے کیلئے بلایا۔ لڑکی کے والد نے ببلو شیخ کو روڈ پر احتیاط سے چلنے کی ہدایت کی۔ اس نے اپنی بیٹی کو نصیحت کی کہ رکشہ کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھے۔ اس سے پہلے کہ ببلو شیخ لڑکی کو اس کی منزل تک پہنچاتا لڑکی نے زار و قطار روناشروع کر دیا۔ببلو شیخ بتاتا ہے کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور اس سے وجہ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے ڈانٹ دیا اور پیچھے دیکھنے سے منع کر دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے مجھے رکنے کو کہا اور کسی کو فون کرنے لگی۔ اس دوران وہ مسلسل چیخ رہی تھی اور رو رہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ جانا چاہتی تھی مگر وہ نہیں آیا تھا۔ اچانک لڑکی رکشہ سے اتر گئی اور کرایہ سیٹ پر ہی چھوڑ دیا، اور جلدی سے ٹرین کی پٹڑی پر چلی گئی، میں جانے ہی والا تھا، اور اس کے باپ کیلئے افسوس کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میری ہاں بیٹی نہ ہونا اچھا ہی ہے، لیکن میں زیادہ دور تک نہ جا سکا۔ اور مجھے اپنے کانوں میں اس کے باپ کی آواز گونجتی محسوس ہوئی کہ لڑکی کا خیال رکھنا۔ میں نے اپنا رکشہ ایک سائیڈ پر کھڑا کیا
اور لڑکی کی طرف بھاگا۔ وہ ریل کی پٹڑی پر کھڑی تھی اور ٹرین کے آگے آکر خودکشی کرنا چاہتی تھی ، وہ ایک بیمار شخص کی طرح کانپتے ہوئے ہچکولے لے رہی تھی۔ میں اس کے قریب گیا اور اس سے واپس چلنے کی درخواست کی۔ جس پر مجھ پر چلائی، مجھے ان پڑھ اور جاہل بیوقوف کہا، مگر میں اسے اس ویران جگہ پر چھوڑ کر جانے سے گھبرا رہا تھا۔ میں نے اسے رونے دیا،
جتنا وہ رو سکتی تھی، رونے دیا۔ جب آنسوئوں کا طوفان تھم گیاتو اس نے مجھے رکشہ لانے کو کہا۔وہاں تقریباً 3 گھنٹے گزر چکے تھے اور بارش بھی آنے والی تھی۔ہم نے کسی بارے میں بات نہ کی، بارش کے دوران میں نے تیزی سے رکشہ چلایا او راسے اس کے گھر کے نزدیک اتار دیا۔ میں جانے لگا تو اس نے مجھے روکا اور کہا، انکل آپ کو میرے گھر اب دوبارہ کبھی نہیں آنا چاہئے،
اور کسی کو مت بتائیے گا کہ آپ مجھے جانتے ہیں۔ میں نے اپنا سر جھکایا اور گھر واپس چلا آیا۔ اس روز میں نے کسی سے بات نہ کی، کچھ نہ کھایا اور خود کو یہ سمجھاتا رہا کہ بیٹی نہ ہونا ہی اچھی بات ہے۔ تقریباً 8 سال کے بعد حال ہی میں میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا، لوگوں نے مجھے بیہوشی کی حالت میں ہسپتال پہنچایا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے ایک لڑکی کو اپنے قریب سفید گائون
اور سٹیتھو سکوپ پکڑے دیکھا، اس نے میرا حال پوچھا، اور یہ بھی پوچھا کہ میں اسے کبھی ملنے کیوں نہیں آیا۔ میری حالت ایسی نہ تھی کہ میں اسے پہچان سکتا، میری آنکھوں کے آگے اندھیرے آاور جا رہے تھے۔ میرا بہت اچھا علاج ہوا اور بڑے ڈاکٹر میرا علاج کر رہے تھے۔میں نے اس لڑکی کو بڑے ڈاکٹر سے یہ کہتے ہوئے سنا ’سر، یہ میرے ابو ہیں‘ اور پھر ڈاکٹر نے انگریزی میں اسے کچھ کہا،
پھر اس نے میرا زخمی ہاتھ پکڑا اور ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر کہا’اگر میرے اس والد نے ماضی میں میری ہمت نہ بندھائی ہوتی تو میں ڈاکٹر بننے کے قابل نہ ہوتی۔‘ میں ایک چھوٹے بیڈ پر لیٹا تھا اور اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر رکھی تھیں، میں کسی کو یہ نہ بتا سکا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں، اس رکشہ چلانے والے کی ایک بیٹی ہے، ایک ڈاکٹر بیٹی۔“
یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نے ٹرین کی پٹڑی پر خودکشی کرنے سے روکا تھا اور اسے واپس اس کے گھر چھوڑ کر آیا تھا۔