عالمی ادبیات کے عظیم شاعر،ادیب اور انشا پرداز حضرت احسان دانشؒ نے ۱۹۸۲ء میں عدم کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اردو ادب کا یہ آفتاب جو ۱۸۹۲ء میں کاندھلہ، ضلع مظفر نگر (یو۔ پی) بھارت میں طلوع ہوا ۔وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ۔ اردو تنقید ،تحقیق اور تخلیق ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہ اجل کے ہاتھوں زمین بوس ہو گئی۔لاہور میانی صاحب کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب کے اس خورشید جہاں تاب کو نگل لیا جو سات عشروں تک علم و ادب سے وابستہ افراد ک
ے سروں پر سایہ فگن تھا۔اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیارِ ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ،ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پر تو دکھائی دیتا ہے۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اس کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں۔ احسان دانش ؒ ایک دبستانِ علم و ادب کا نام ہے وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔احسان دانش کا پورا نام احسان الحق اور تخلص احسان، ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ کے والد قاضی دانش علی ایک درویش منش اور بلند کردار انسان تھے ۔احسان دانش نے کاندھلہ ضلع مظفر نگر میں اپنے نانا ابو علی شاہ کے یہاں پرورش پائی جو ایک غریب سپاہی تھے۔ ان کے انتقال پر ان کے والد قاضی دانش علی باغپت سے سکونت ترک کے کاندھلہ آ گئے ۔جب احسا ن نے ذرا ہوش سنبھالا تو ان کے والد نہر جمن شرقی میں کھدائی کروانے والے ٹھیکیاروں کے یہاں مزدوروں کے جماعت دار تھے اور جب کبھی جماعت داری نہ ملتی تو خود ’’ٹوکری پھاوڑے‘‘ لے کر کام کرتے۔وہ جس مکان کے بالائی حصے میں رہتے تھے آئے دن چھت میں سانپ رینگتے دکھائی دیتے ۔گھر میں کوئی لکڑی ،لوہے یا جست کا بکس نہ تھا اس لیے نئے اور دھلے ہوئے کپڑے ایک مٹکے میں بھرے رہتے
اور عید تہوار کے موقع پر احسان کی والدہ وہی مَلے دَلے کپڑے سلوٹیں کھول کھول کر اسے پہنایا کرتی ۔غربت کے باعث ان کی والدہ محلے کی دوسری صاحب حیثیت عورتوں سے سینے کے لیے کپڑے اور پیسنے کے لیے اناج منگوا لیا کرتی تھیں۔ دن بھر کپڑے سینا اور علی الصبح سے ہی چکی کی جاں گداز مشقت ان کا معمول سا بن گیا تھا۔یہ چکی ان کے سرہانے پڑی رہتی ۔جب کبھی ان کے گھر سالن نہ پکتا
تو ان کی والدہ پانی میں بھگو کر روٹی کھلاتیں اور ساتھ ہی خود بھی کھاتیں۔احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پردازی اور شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی انشا پردازی کے بڑے دل کش نمونے ملتے ہیں وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں
۔وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے تھے۔’’جہان دانش‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے جو محض ایک سوانح ہی نہیں بل کہ اس پورے عہد کی دل چسپ اور حقیقت سے لبریز ہے جو ہمیں ایک تاریخی کتاب سے بڑھ کر ناول لگی ہے ۔احسان دانش کی آپ بیتی ’’جہان دانش‘‘ ۱۹۷۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔احسان دانش جب اپنے سمت ماضی کا دریچہ کھولتے ہیں تو ان کے سامنے حادثات کے سینکڑوں آئینے وا ہوتے نظر آتے ہیںْ
’’جہان دانش‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’’ ہر چند کہ آپ بیتی لکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے تندرست تصور ،جیالہ حافظہ اور تازہ دم قوتِ تخلیق درکار ہے ۔جو ہر شخص کا حصہ نہیں ،آپ بیتی لکھنے والا انسان ،ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح ادب تخلیق نہیں کرتا بل کہ ان کے جادۂ فکر سے ہٹ کر گزری ہوئی صداقتوں کو عصر حاضر میں اس طرح رفو کرتا ہے کہ سیون دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
احسان دانش جہاں اپنی کم علمی ،مزدوری اور نہایت کم تر ذرائع آمدنی کا برملا اظہار کرتے ہیں وہیں پر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ لوگ بھی دنیا میں چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوتے ہیں،وہ مایوس بالکل نہ ہوں بل کہ محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنائیں۔ احسان دانش کی تعلیم کے متعلق ان کے والدین کے عزائم تو پہاڑوں سے بھی بلند و بالا تھے مگر افلاس کے موسم پر ارادے کی بنیاد بے اعتباری کی نذر ہو کر تہس نہس ہو جاتی ہے۔
ناسازگار ماحول ان کے آڑے آتا رہا۔ والد کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی۔احسان کو پہلے پہل قرآن خوانی کے لیے سید حافط محمد مصطفی کے سپرد کیا گیا جس سے بہت جلد احسان نماز روزے کے قابل ہو گئے تھے۔فارسی بھی انھی سے سیکھی پھر اسے تحصیلی سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں وہ چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے حالات کے باعث مزید تعلیم حاصل نہ کر پائے۔
چوتھی جماعت میں کامیابی کے بعد احسان اپنے ایک عزیز منشی محمود علی کے پاس جو کاندھلے میں محرر ضلع داری کرتے تھے ۔’’پتر ولی‘‘ سیکھنے لگے ۔احسان تمام دن ڈاک کے رجسٹروں میں آنے جانے والی چٹھیوں کی نقلیں کیا کرتے اور شام کو گھر آ جاتے ۔رفتہ رفتہ انھیں پنسال لکھنا ،شجر ے ملانااور آب و صنائع کا اندراج آ گیا۔مگر وہاں کوئی جگہ نہ نکل سکی اور گھر کی ضروریات کے تقاضوں نے دفتر چھوڑنے پر مجبور کردیا
اور قاضی محمد ذکی کی صحبت میں شعر کہنے لگے۔احسان دانش کوئی جاگیردار اور نواب نہ تھے بل کہ ایک عام سے شخص تھے جنھوں نے ایک غریب گرانے میں آنکھ کھولی اور پھر مفلسی اور غریبی کے ماحول میں پروان چڑھے۔انھوں نے نہر کے ٹھیکیداروں کے ساتھ مزدوری کی ،گرمیوں میں گیہوں کے کھیتوں میں فصل کی کٹائی کی،اینٹیں ڈھوئیں، گارا ڈھویا،رنگ گھوڑے کے ساز بنائے ،بکری پالی،بیوپاری کی ملازمت کی
،مہاجن کی نوکری کی،دفتر کے چوکیدار بنے،نہر کے ٹھیکیداروں کی تنگ نظری سے تنگ آ کر شہر میں آ کر معماروں کے ساتھ مزدوری شروع کی اور ایک مثالی مزدور کے طور پر سامنے آئے۔لکھائی چھلائی کاکام کیا اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کے دروازے پر سیمنٹ سے بنے ہوئے P۔U حرف میں احسان کا گرم خون شامل ہے لیکن ان حالات کے پیش نظر بھی احسان کے اندر ایک فنکار ہمیشہ اپنی آنکھیں کھولے
چھپا رہا اور جب بھی موقع ملا باہر نکلنے کو بے تاب رہا اور زرا سی بھی دیر نہیں کی ،مگر ایک بات طے ہے کہ دولت کی کمی ہونے کے باوجود بھی احسان دانش کے پاس خود داری اور غیرت مندی کی دولت کبھی ختم نہ ہوئی بل کہ بڑھتی گئی۔احسان کو امرتسرسے بز م شورش کا دعوت نامہ موصول ہوا جب آپ وہاں پہنچے تو ٹاؤن ہال کے باہر مشاعرے میں پہلے تو ان کی ہیئت کذائی سے انھیں شاعر ہی تسلیم نہ کیا گیا
اور ہال کے اندر جانے سے روک دیا گیا ۔کسی کو بھی ان کے شاعر ہونے کا یقین نہ آیا اور سب نے مختلف انداز میں ایک ہی جواب دیا کہ یہ ہمیں بیوقوف بناتا ہے۔احسان جب شاعروں والے دروازے کی طرف گئے تو ایک نے دوسرے کو مخاطب کر کے کہا:’’آپ سے ملاقات کیجئے ،آپ مشاعروں کی شرکت کے لیے اترے ہیں۔‘‘پھر ڈاکٹر شفاعت علی کی مداخلت پر انھیں ہال میں جانے کی اجازت مل گئی۔ وجہ یہ تھی
کہ احسان دانش کی کھدر کی شیروانی راستے میں لاریوں کی اڑتی گرد اور دھواں سے بھورے رنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔اب کہ ہال میں لوگوں کی پارٹیاں آ رہی تھیں اور لباس کی نمائش بھی باعث افتخار تھی۔سٹیج سیکرٹری نے ناک بھوں چڑھا کر جب بادل ناخواستہ انھیں دعوت کلام دی تو حاضرین مشاعرہ نے ہوٹنگ شروع کر دی۔ترنم کے ساتھ مطلع سر زد ہونا تھا کہ حاضرین پر ایک سکتے کا عالم طاری ہو گیا
اور دوسرے شعر پر داد و تحسین کے پھول برسنے لگے۔احسان دانش نے غزل ختم کی اور مقطع پڑھ کر وہیں زمین پر جا بیٹھے مجمع نے مکرر مکر رکے شور سے خلا کو بھر دیا تھا۔ سونے اور چاندی کے تمغوں اور بیس روپے نقد انعام کے علاوہ احسان دانش کو اس مشاعرے میں بزم شورش کی طرف سے ’’شاعر فطرت‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔