اپنے غیر معمولی تقدس کے اعتبار سے مسجد حرام میں امامت ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ مسجد حرام میں مسند امامت پر فائز ہونے کے لیے قرآن وسنت، فقہ اور دیگر علوم دینیہ پر گہری دسترس ضروری ہے، مگر یہ سب کافی نہیں۔ مسجد حرام کے امام کی خوش الحانی سے تلاوت کلام پاک بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے۔مسجد حرام کی امامت ہر دور میں مختلف ممالک کے آئمہ
کرام کرتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں کئی آئمہ اور خطباء مقرر ہیں۔ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ مسجد حرام میں مصر کے تین ممتاز علماء کا نام ان کے علمی تبحر، تقویٰ، پرہیرز گاری اور خوش الحانی سے تلاوت کلام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے مصر سے تعلق رکھنے والے ان تین علماء کرام کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔
الشیخ عبدالظاھر ابو السمح
الشیخ عبدالظاھر ابوالسمح مصر کی مشرقی گورنری کے منیا مرکز میں التلین قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار سعودی عرب سے باہر سے تعلق رکھنے والے تیسرے امام کے طور پر ہوتا ہے۔ انہیں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز مرحوم و مغفور سنہ 1926ء میں اسکندریہ سے اپنے ساتھ سعودی عرب لائے تھے۔الشیخ عبدالظاھر ابو السمح جدی پشتی قرآن سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد بزرگوار بھی حافظ قرآن تھے۔ الشیخ ابو سمح نے اپنے والد ہی سے نو سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ اس کے بعد جامعہ الازھر میں داخلہ کیا اور قرآت سبعہ پر مہارت حاصل کی۔ اس کے علاوہ تفسیر، فقہ عربی زباب وادب بھی ان کے اہم مضامین تھے۔ ان کے اساتذہ میں الشیخ محمد الشنقیطی، محمد عبدہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں شیوخ سے انہوں نے کسب فیض کیا۔ ابن القیم اور علامہ ابن تیمیہ کی کتب کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا۔شاہ عبدالعزیز الشیخ عبدالظر کے علمی مقام ومرتبے اور ان کی تلاوت کلام پاک سے بے حد متاثر ہوئے اور انہیں مسجد حرام میں امامت کی مسند پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ شاہ عبدالعزیز کے کہنے پر مکہ معظمہ آئے، مسجد حرام کی امامت سنھبالی اور دین کی تبلیغ اور تدریس کا فریضہ بھی انجام دیا۔ الشیخ عبداللہ بن حسن آل الشیخ اور الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن حسن آل الشیخ کے بعد تیسرے غیر ملکی امام تھے۔ انہوں نے مسجد حرام میں پہلی بار لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور نماز ادا کرنے والے الشیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کے ساتھ کام کیا۔
الشیخ عبدالمھیمن ابو السمح
مصر سے تعلق رکھنے والے قاری اور ممتاز عالم دین الشیخ عبدالمھیمن محمد نور الدین ابو السمح مشرقی گورنری کے التلین قصبے میں سنہ 1890ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے بھائی الشیخ عبدالظاھر ابو السمح جن کا اوپر ذکر ہوا مسجد حرام کے خطیب تھے۔ یوں دونوں بھائیوں کو اللہ نے مسجد حرام میں امامت کے فرائض کی انجام دہی کی سعادت بخشی۔الشیخ عبدالمھین نے دس سال کی عمر میں اپنے والد سے قرآن کریم حفظ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ابن مالک کی الفیہ، الشاطبی کی الشاطبیہ اور جمع القراءا کے متن بھی یاد کیے۔جامعہ الازھر میں تحصیل کے علم دوران انہوں نے کبار علماء سے قرآن کریم، تفسیر، فقیہ، حدیث اور لغت کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں الشیخ محمد عبدہ، الشیخ الزنکلونی، الشیخ الشرشابی زیادہ مشہور ہیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے قاہرہ میں انصار السنہ المحمدیہ نامی جماعت کے مرکز کے قریب تحفیظ القرآن کا مدرسہ قائم کیا۔الشیخ محمد ابو السمح سنہ 1914ء کو قاہرہ سے دمشق چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دور میں انہوں نے دمشق میں مدرسہ المحمدیہ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ جدہ میں اپنے بھائی الشیخ عبدالظاھر ابو السمح کے پاس آگئے۔الشیخ عبدالظاھر کی قرآن فہمی اور خوش الحانی سے شاہ عبدالعزیز متاثر ہوئے اور انہیں بھی مسجد حرام میں امامت کی ذمہ داری سونپی۔ وہ 1388ھ تک اس منصب پر فائز رہے۔ الشیخ عبدالمھین نے 27 رمضان المبارک 1399ھ کو 92 سال کی عمر میں انتقال کیا۔ وہ مکہ ہی میں دفن ہوئے۔
الشیخ محمد عبدالرزاق حمزہ
الشیخ عبدالرزاق حمزہ تیسرے مصری عالم ہیں جنہوں نے مسجد حرام میں امامت کے فرائض انجام دیے۔ ان کا آبائی شہر مصر کی القلیوبیہ گورنری میں کفر الشیخ عامر بتایا جاتا ہے۔ وہ الشیخ عبدالظاہر کے ہمراہ سعودی عرب آئے، یہاں ان کا تعارف سعودی حکام بالخصوص شاہ عبدالعزیز مرحوم سے ہوا۔
الشیخ محمد عبدالرزاق حمزہ نے اتبدائی دینی تعلیم آبائی شہر ہی سے حاصل کی۔ قرآن کریم حفظ کرنے اور کتاب وقرآت قرآن کے بنیادی اصول سیکھنے کے بعد وہ جامعہ الازھر سے میں داخل ہوگئے اور دعوت ارشاد کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ یہ شعبہ الشیخ محمد رشید رضاء نے قائم کیا تھا۔
الشیخ محمد عبدالرزاق نے مکہ مکرمہ میں پہلی فلکی رصدگاہ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ ان کی تجویز پر روئیت ہلال کے لیے جبل ابو قبیس کے مقام پر شاہ سعود بن عبدالعزیز نے رصد گاہ قائم کی گئی۔سنہ 1952ء میں الریاض میں مفتی اعظم الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کی زیرسرپرستی ایک علمی مرکز قائم کیا گیا اور اس مرکز میں الشیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کو تدریس کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔سنہ 1965ء میں الشیخ محمد حمزہ علیل ہوگئے۔ ان کا مرض بڑھتا گیا۔ مکہ اور طائف کے اسپتالوں میں علاج ناکام رہا۔ بالآخر 1970ء کو وہ صاحب فراش ہوگئے اور 1972ء کو انتقال کیا۔