ہسپتال میں ایک غریب عورت اپنے بچے کو روتی ہوئی لے کر آئی، اس کے بچے کو دیکھنے کا کام میڈیکل کے آخری سال میں ٹریننگ لینے والے ڈاکٹر کے ذمے لگایا گیا، میڈیکل کالج سے کچھ دنوں بعد ڈگری ملنے والی تھی پھر وہ آزادی سے کہیں بھی کلینک کھولنے کا ارادہ رکھتا تھا،
بچے کی ایک ٹانگ بڑی اور ایک چھوٹی تھی، ایک ہاتھ کی انگلی بھی کٹی ہوئی تھی۔ اس نے بچے کو دیکھ کر برا سا منہ بنایا کہ اس اپاہج کو زندہ رکھنے کا کیا فائدہ۔ سرکاری ہسپتال میں ڈگری کھونے کے ڈر سے آکسیجن لگا دی بچہ سانس لینے لگا اور اس کی ماں دعائیں دینے لگ گئی وہ حقارت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا، وقت گزرتا گیا، کامیاب ڈاکٹر بن گیا لیکن مقصد پیسہ کمانا تھا۔ دولت کی ریل پیل نے رہی سہی انسانیت کی ہمدردی بھی ختم کر دی۔ شادی کے بعد اکلوتی بیٹی کی ہر خواہش پوری کی، ایک دن بیٹی کے پیر میں درد شروع ہو گیا۔ ملک کا ہر مشہور ڈاکٹر اس کی بیٹی کا علاج کرنے میں ناکام رہا، تھک کر ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا، پہلے تو اسے کچھ ہوش نہ تھا لیکن پھر ڈاکٹر کے علاج سے دو دنوں میں ہی اس کی بیٹی ٹھیک ہو گئی تو اس نے غور کیا ڈاکٹر لنگڑا ہے، ایک ٹانگ چھوٹی ایک بڑی، پھر ہاتھ پر نظر گئی تو انگلی کٹی ہوئی۔ ندامت سے سر جھکا کر رہ گیا۔ سالوں پہلے جس کا علاج کرتے وقت اسے مارنے کا سوچ رہا تھا، آج اسی نے بیٹی کی زندگی بچا لی، مٹی سے بنے انسان سب برابر ہیں، کوئی سیمنٹ یا ماربل سے بنا ہو تو ضرور غرور کرے۔