کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ صرف اٹھارہ آدمیوں نے ایک بہت بڑی حکومت کی راج دھانی پر قبصہ کر لیا ہو؟ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ایک ایسا واقع بھی موجود ہے ۔ اور کسی دوسرے ملک میں شائد ہی اس کی نظیر مل سکے ۔ یہ محمد بن بختیار خلیجی کا کارنامہ تھا ، جوہندوستان کے پہلے بادشاہ قطب الدین ایبک کا ایک سردار تھا ۔محمد بن بختیار کے کارنامے افسانوں سے بھی زیادہ عجیب ہیں ۔ یہ ایک معمولی آدمی تھا ۔ پہلے اُس
نے غزنی میں سپاہی بھرتی ہونے کی کوشش کی ، مگر کامیاب نہ ہوا ۔ پھر دہلی پہنچا ۔ یہاں بھی اسے کوئی جگہ نہ مل سکی تو بدایوں کی طرف چلا گیا اسلامی حکومت کی مشرقی سرحد پر تھوڑی سی زمین مل گئی اور اُس نے اپنے طور پر کچھ سوار بھرتی کر لیے ۔1197ء میں دو سواروں کو لے کر ہلہ بول دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں پورے علاقے پر قابض ہو گیا قطب الدین اُس زمانے میں بادشاہ نہ تھا بلکہ سلطان محد غوری کی جانب سے نائب السلطنت تھا ۔اُسے محمد بن بختیار کے اس کارنامے کا علم ہوا تو اعلیٰ درجے کا خلعت عطاکیا اور اُس کو فتح کئے ہوئے علاقے کا حاکم بنا دیا ۔اب محمد بن بختیار کو اپنی مردانگی اور کاردانی کے جوہر دکھانے کا پورا موقع مل گیا اس نے ایک فوج تیار کی اور بنگال کے راجا رائے لکشمن سین کی راج دھانی ندیا کا رُخ کیا ۔ اس کی شہرت پہلے ہی دوردور پھیلی ہوئی تھی ۔ نِکلا تو اس تیزی سے نکلا کے ساری فوج پیچھے رہ گئی ۔ صرف اٹھارہ آدمی ساتھ تھے ۔ اسی طرح وہ شہر میں راجا کے قلعے کے دروازے پر پہنچ گیا ۔پہنچتے ہی پہرہ داروں پر حملہ کر دیا۔اور فوج کا انتظار نہ کیا ، اسے یقین تھا کہ اس کے ساتھیوں کی تھوڑی تعداد کا خیال کوئی نہ کرے گا، سب یہی سمجھے گے کہ بہت بڑی فوج لے کر آیا ہےاور بیباکانہ لڑ رہا ہے اس کا یہ خیال بالکل دُرست نکلا ۔راجا اُس وقت کھانا کھا رہا تھا ۔ باہر سے لوگوں کی چیخ و پکار کان تک پہنچی تو
حواش باختہ ہو گیا اور ننگے پاؤں بھاگا اور سُنار گاؤں میں پہنچ کر دم لیا جو کسی زمانے میں ایک بڑا شہر ہوا کرتاتھا اور اب بھی خاصہ مشہور ہے ۔ ڈھاکہ سے کوئی تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہوگا ۔ پہلے قدم پر شکست کے بعد راجا کہ لیے کہیں جم کر لڑنے کی کوئی صورت باقی نہیں بچی ۔ تھوڑے ہی دنوں میں محمد بن بختیار بہار کی طرح پورے بنگال پر قابض ہوگیا اور اپنے کارناموں کی ایسی یادگار چھوڑگیا جو بڑے آدمیوں میں سے بہت تھوڑے انجام دے سکے ہیں۔