بیوی بار بار ماں پر الزام لگائے جا رہی تھی ۔اورشوہر بار بار اسکو اپنی حد میںرہنے کی کہہ رہا تھالیکن بیوی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیبار بار زور زور سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ”اس نے انگوٹھی ٹیبل پر ہی رکھی تھیاور تمهارےاور میرے علاوہ اس کمرے میں کوئی نہیں آیاانگوٹھی ہو نا ہو ماں جی نے ہی اٹھائی ہے۔بات جب شوہر کی برداشت سے باہر ہو گئی تو
اس نے بیوی کے گال پر ایک زور دار طمانچہ دےمارا ابتین ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی۔ بیوی سے طمانچہ برداشت نہیں ہوا وہ گھر چھوڑ کر جانے لگیاور جاتے جاتے شوہر سے ایک سوال پوچھاکہ تمھیں اپنی ماں پر اتنا یقین کیوں ہے ؟؟تب شوہر نے جو جواب دیااس جواب کو سن کردروازے کے پیچھے کھڑی ماں نے سناتواس کا دل بھر آیاشوہر نے بیوی کو بتایا کہ”جب وہ چھوٹا تھا تب اس کے والد گزر گئے.ماں محلے کے گھروں میں جھاڑو پوچھا لگا کر جو کما پاتی تھیاس سے ایک وقت کا کھانا آتا تھاماں ایک پلیٹ میں مجھے روٹی دیتی تھیاورخالی ٹوکری ڈھک كر رکھ دیتی تھیاورکہتی تھیمیری روٹیاں اس ٹوکری میں ہے بیٹا تو کھا لےمیں نے بھی ہمیشہ آدھی روٹی کھا کر کہہ دیتا تھاکہ ماں میرا پیٹ بھر گیا ہےمجھے اور نہیں کھانا ہےماں نے مجھے میری جھوٹی آدھی روٹی کھا کر مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا ہےآج میں دو روٹی کمانے کے قابل ہوا ہوںلیکن یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ ماں نے عمر کے اس حصے پر اپنی خواہشات کو مارا ہے،.وہ ماں آج عمر کے اس حصے پر کیسے انگوٹھی کی بھوکی ہو گییہ میں سوچ بھی نہیں سکتاآپ تو تین ماہ سے میرے ساتھ ہومیں نے تو ماں کی تپسیا کو گزشتہ پچیس سالوں سے دیکھا ہے یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھےوہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹا اس کی آدھی روٹی کا قرض چکا رہا ہے یا وہ بیٹے کی آدھی روٹی کا قرض۔