یوم پاکستان کی تقریبات میں سعودی فوجی دستے کی شرکت سے جہاں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور دوستی کا اظہار ہوتا نظر آتا ہے وہیں یہ تعاون دونوں ممالک کے دیرینہ اور گہرے تعلقات کا آئینہ دار بھی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں ممالک کا گہرا تعلق دنیا کے سامنے آیا بلکہ اسلام کے مضبوط رشتوں میں بندھے یہ دونوں اہم اسلامی ممالک ماضی میں بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ آل سعود کی برصغیر کے مسلمانوں اور تحریک پاکستان سے
وابستگی سے متعلق شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ سعودی بادشاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1940میں اپنے پانچوں بیٹوں کے ہمراہ کراچی کا دورہ کیا تھا جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنمائوں اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان گہرا رشتہ قائم ہو گیا تھا پھر جب 1943میں بنگال میں بدترین قحط پڑ ا تو یہ شاہ سعود ہی تھے جنہوں نے قائداعظم ؒ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس وقت کی خطیر رقم 10ہزار پائونڈ عطیہ بھیجا جو مسلمانان برصغیر کی مشکل وقت میں بھیجی جانے والی پہلی غیر ملکی امداد ہے۔ سعودی شاہی خاندان نے قیام پاکستان کے اعلان سے قبل ہی پاکستان کو دلوں میں بسا لیا تھا۔ 1946میں قائداعظمؒ کی جانب سے اقوام متحدہ بھیجے جانےوالے تحریک پاکستان کے وفد کی حمایت اور دلجوئی بھی شہزادہ فیصل نے کی تھی جب انڈین نیشنل کانگریس کا وفد اقوام متحدہ میں برصغیر کے مسلمانوں کے وفد کی راہ میں رکاوٹ بن چکا تھا۔ شہزادہ فیصل نے آل انڈیا مسلم لیگ کے وفد کو ہوٹل میں ظہرانے میں مدعو کیا جہاں وہ قیام پذیر تھے اور بعد ازاں اقوام متحدہ میں پاکستان کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والے اس وفد کو اقوام متحدہ میں متعارف کرایا جہاں انہوں نے پاکستان کے حصول کیلئے کی جانے والی کاوشوں سے متعلق اقوام متحدہ کو آگاہ کیا اور انڈین نیشنل کانگریس کا وفد منہ دیکھتا رہ گیا۔ضیاالحق کے دور حکومت میں جب حج
کے موقع پر چند شرپسندوں نے کعبہ پر حملہ کر دیا اور مسجد حرام کو حاجیوں کیلئے بند کر دیا اور فساد پیدا کیا تو سعودی حکومت شدید شش و پنج میں مبتلا ہو چکی تھی کیونکہ حرم کعبہ میں خون بہانا حرام ہے اور کعبہ کو ان شرپسندوں سے آزاد کرانا بھی ضروری تھا ۔ اس صورتحال میں سعودی حکومت نے اپنے دیرینہ دوست پاکستان سے مدد طلب کی۔ سابق صدر جنرل ضیا الحق کے حکم پر اس وقت کے میجر پرویز مشرف جو
بعد میں پاکستان کےآرمی چیف اور صدر بنے کی قیادت میں ایک فوجی دستہ شرپسندوں کی سرکوبی کیلئے بھیجا گیا جنہوں نے نہایت عمدہ ترکیب سے بغیر خون بہائے کعبہ سے شرپسندوں کو نکال باہر کیا۔پاک فوج اور سعودی افواج کے درمیان تعاون کا سلسلہ بہت دراز ہے ، سعودی فوج کی تربیت میں بھی پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا۔ 1990کی خلیج جنگ کے دوران پاکستانی دستے سعودی عرب میں تعینات تھے جہاں وہ محاذ جنگ تک
رسد اور حرمین شریفین کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ضیا الحق کے ہی دور حکومت میں دو بریگیڈ آرمی حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے بھی سعودی عرب بھیجی گئی تھی۔1965کی پاک بھارت جنگ میں سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے ـصدر ایوب کو ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ۔ شاہ فیصل مرحوم کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ 65کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے اہلخانہ کے ہمراہ خانہ کعبہ میں پہنچ گئے
اور نوافل ادا کرنے کے بعدپاکستان کی فتح کیلئے گریہ و زاری کرتے رہے اور اپنے اہلخانہ کو بھی دعا کی بار بار تلقین کرتے رہے۔ 2005کےہولناک زلزلے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا، آزادکشمیر کا بہت بڑا حصہ اور پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے کئی علاقے اس زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے ۔اتنی بڑی افتاد اور متاثرین کی بحالی ایک بہت مشکل کام تھا جس کے لئے کثیر رقم درکار تھی۔ سعودی حکومتایک بار پھر سامنے آئی اور متاثرین زلزلہ کیلئے خزانے کے منہ کھول دئیے اور اب تک متاثرین زلزلہ کی بحالی کیلئے کی جانے والی کوششوں میں مصروف عمل ہے