بیان کیا جاتا ہے کہ ایرا ن کے مشہور بادشاہ عمرولیث کا ایک غلام موقع پاکر بھاگ گیا۔لیکن لوگوں کو فوراََہی معلوم ہوگیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے آئے ۔بادشاہ کا ایک وزیر کسی وجہ سے اس غلام سے بہت ناراض تھا۔غلام کے بھاگنے اور گرفتا ر ہوکر آنے کا حال معلوم ہوا تو اس وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ غلام کو فور اََقتل کرادینا چاہئے۔
اگر اسے سخت سزا نہ دی گئی تو اور غلا موں کا حوصلہ بڑھے گااور وہ بھاگنا شروع کر دیں گے۔غلام نے وزیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا یہ ظالم دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرانا چاہتا ہے ۔اس نے بہت ادب سے کہا کہ یہ غلام حضور بادشاہ سلامت کا نمک خوار ہے ۔بے شک مجھ سے ایک گناہ ہوا ہے لیکن میرے دل سے حضور کی خیر خواہی اور محبت کم نہیں ہوئی اور محبت اور خیر خواہی کی وجہ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے قتل کرا کے حضور میرا خون ناحق اپنی گردن پر نہ لیں۔ایسا نہ ہو کہ جب قیامت کے دن میرے قتل کے بارے میں پوچھا جائے تو حضور جواب نہ دے سکیں۔اگر مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں۔بادشاہ نے سوال کیا ،وہ کیسے ہوسکتا ہے ؟غلام فوراََبولا کہ حضور اجازت دیں تو میں اس وزیر کو قتل کردوں اور پھر اس گناہ میں حضور مجھے قتل کر دیں۔غلام کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ہنسی آگئی ۔اس نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا،بتا اب تیرا کیا مشورہ ہے ؟وزیر خوف سے کانپتے ہو ئے بولا ،حضور اس فتنے کو اپنے بزرگوں کے صدقے آزادہی کردیں تو اچھا ہے۔