حضرت موسیٰ ؑ نے ایک دفعہ اللہ سے عرض کیا اے اللہ مجھے اپنے عدل وانصاف کا کوئی نمونہ دکھا‘ حکم ہوا‘ فلاں مقام کی طرف چلے جاﺅ‘ وہاں ہمارے انصاف کا نمونہ دیکھ لو گے‘
موسیٰ علیہ السلام اس مقام کی طرف چلے گئے جہاں چند درختوں کے جھنڈے تھے اور پانی کا صاف اور ستھرا چشمہ بہہ رہا تھا‘ آپ ان درختوں میں چھپ کر بیٹھ گئے کہ ایک گھوڑا سوار آیا اور چشمہ سے تھوڑا سا پانی پیا اور ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی وہیں‘بھول کر چلا گیا‘ اتنے میں ایک کمسن لڑکا وہاں آیا اور تھیلی اٹھا کر چلتا بنا‘اس کے بعد ایک اندھا شخص آیا اور چشمہ سے وضو کرنے لگا مگر ادھر سوار جب تھوڑی دور پہنچا تو اسے تھیلی یاد آئی تو فوراً پلٹ کر چشمہ پر آیا اور اندھے سے پوچھا‘ تم نے میری اشرفیوں سے بھری تھیلی تو نہیں اٹھائی؟ اندھے نے جواب دیا‘ مجھے کوئی خبر نہیں‘ میں نے کوئی تھیلی نہیں اٹھائی‘ اس پر سوار کو غصہ آیا اور اس نے اندھے کو قتل کر دیا‘موسیٰ علیہ السلام یہ سب ماجرا دیکھ رہے تھے‘ اللہ نے وحی بھیجی کہ موسیٰ تعجب کی کوئی بات نہیں‘ کم سن لڑکے نے اپنا حق پا لیا کیونکہ گھوڑے کے سوار نے اس لڑکے کے باپ سے ہزار اشرفیاں ناحق چھینی تھیں اور اندھے نے سوار کے باپ کو ناحق قتل کر ڈالا تھا تو ہر ایک حق دار کو اس کا حق مل گیا۔
(نزہة المجالس صفحہ 104‘ جلد دوم)