ذہانت

9  جولائی  2017

قائد اعظم کی ذہانت کی ہر کوئی ویسے ہی داد نہیں دیتا۔ یہ تحریر پڑھ کر مسکرائیے اور اپنے عظیم لیڈر کو سلام پیش کریں۔قائداعظم سفرِ ریل کے دوران اپنے لیے دو برتھیں مخصوص کرایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے ان سے وجہ دریافت کی تو جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ’’میں پہلے ایک ہی برتھ مخصوص کراتا تھا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں لکھنٔو سے بمبئی جا رہا تھا۔

کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں آکر دوسری برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ مخصوص کرائی تھی، اس لیے خاموش رہا۔ریل نے رفتار پکڑی تو اچانک وہ لڑکی بولی ’’تمھارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کردو، ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے کاغذات سے سر ہی نہیں اٹھایا۔اُس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اُس نے مجھے جھنجھوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا ’’میں بہرہ ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے، لکھ کر دو۔‘‘اُس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے مع تحریر ریلوے حکام کے حوالے کردیا۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھیں مخصوص کراتا ہوں۔‘‘رومانیہ کی لوک داستان میںایک بچہ اپنی ماں سے شکایت کرتا ہے ”ماں مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے“ ماں اسے تاریک کمرے میں لے جاتی ہے‘ اس کے ہاتھ میں ماچس پکڑاتی ہے اور اس سے کہتی ہے ”بیٹا تم ماچس جلاﺅ“ بیٹا ماچس کی ڈبی سے ایک دیا سلائی نکالتا ہے‘ اس تیلی کو ماچس کی سائیڈ سے رگڑتا ہے‘

ایک شعلہ سالپکتا ہے اور پورا کمرہ روشن ہو جاتاہے‘ماں بیٹے سے پوچھتی ہے ”بیٹا اندھیرا کہاں ہے؟“ بیٹا دائیں بائیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے ”اندھیرا تو چلا گیا“ اس وقت اس کی ماں کہتی ہے‘ بیٹا جو شخص ماچس جلانا نہیں جانتا‘ وہ پوری زندگی اندھیروں سے ڈرتا رہتا ہے‘ اگر تم اندھیرے سے‘ اندھیرے کے خوف سے بچنا چاہتے ہو تو تم ایک ماچس لے لو اور یہ ماچس جلانا سیکھ لو‘

تم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خوف سے آزاد ہو جاﺅ گے“ ۔دنیا میں خوف سے نجات کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک‘ آپ اس چیز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مار دیں جو آپ کو خوفزدہ کرتی ہے اور دو‘ آپ خود کو اس خوف سے زیادہ مضبوط بنا لیں لیکن ہم عموماً یہ دونوں طریقے استعمال نہیں کرتے‘ ہم خود کو مضبوط بناتے ہیں اور نہ ہی خوف کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم زندگی بھر معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور معجزے لاٹری کی طرح ہوتے ہیں۔ لاٹری کے ٹکٹ لاکھوں لوگ خریدتے ہیں لیکن انعام کوئی ایک پاتا ہے اور ہم وہ کوئی ایک بننے کی خواہش میں پوری زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…