یہ 26جون 1979ء کی بات ہے ،کہوٹہ لیبارٹریز کی حفاظت پر مامور آئی ایس آئی کے جوانوں نے علاقے میں دو غیر ملکیوں کو کار میںاِدھر اُدھر حرکت کرتے دیکھا۔ وہ اپنے کیمروں سے اردگرد کے مناظر کی تصاویر کھینچ رہے تھے ۔یہ دیکھ کر جوانوں کی چھٹی حس جاگ پڑی۔ کہوٹہ لیبارٹریز میں پاکستانی سائنس داں و انجینئر راز دارانہ طور پر ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں محو تھے۔
اس بم کی تیاری سے قومی دفاع انتہائی مضبوط ہو جاتا اور دشمن جرات نہ کرتا کہ پاکستان کو میلی نظر سے دیکھ سکے۔قدرتاً یہ انتہائی حساس معاملہ تھا۔بھارت اور اسرائیل کے علاوہ مغربی استعمار کی خفیہ ایجنسیاں بھی پاکستانی ایٹم بم کو تردد کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں۔ان کی یہی سعی تھی کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت نہ بننے پائے۔ آئی ایس آئی کے جوان اس سارے پس منظر سے بخوبی واقف تھے۔سو انہوں نے دفاعِ وطن سے متعلق حساس ترین مقام پر دو غیر ملکیوں کو منڈلاتے دیکھا تو چوکنا ہو گئے۔انہوں نے موقع پاتے ہی انہیں جا پکڑا اور پوچھ گچھ کرنے لگے ۔جوانوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر ملکی ،لیو گورریریس فرانس کا سفیر تھا۔دوسرا فرانسیسی سفارت خانے کا فرسٹ آفیسر نکلا۔ بعدازاں تفتیش سے انکشاف ہوا کہ دونوں فرانسیسی امریکی خفیہ ایجنسی ،سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔سی آئی اے نے ان کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں تاکہ کہوٹہ لیبارٹریز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تصویری معلومات حاصل کرسکے۔یوں آئی ایس آئی کے جوانوں نے حاضر دماغی اور دلیری سے کام لیتے ہوئے دشمن کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ دین اسلام اور دفاع دشمن کے عزائم اور سرگرمیوں سے باخبر ہونے اور اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لیے ازروئے قرآن و سنت دشمنوں کی جاسوسی و سراغ رسانی کرناجائز ہے۔درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ اور دیگر مخالف عرب قبائل کے مذموم منصوبوں و چالوں سے واقف ہونے کی خاطر بڑے مربوط انٹیلی جنس نظام کی بنیاد رکھی۔ابتداً یہ کام عام مخبروںسے لیا جاتا تھا۔بعدازاں مدینہ منورہ میں سراغ رسانی کا باقاعدہ شعبہ (Cell)تخلیق کیا گیا جس کے پہلے سربراہ حضرت عمرؓبن خطاب بنائے گئے۔ تاریخ اسلام سے عیاں ہے کہ پہلے مسلمان جاسوس خلیفہ اول،حضرت ابوبکرصدیقؓ کے صاحبزادے ،حضرت عبداللہؓ تھے۔ہجرت مدینہ سے قبل نبی کریمؐ اور خلیفہ اولؓ نے تین دن غار ثور میں قیام فرمایا تھا۔ اس زمانے میں حضرت عبداللہ ؓ لڑکے سے تھے۔پہلے ہی روز رسول اللہ ؐ نے حضرت عبداللہؓ کو ہدایت دی کہ دن بھر کفار مکہ کے ساتھ اٹھو بیٹھو۔اور جو باتیں سنو ، وہ شام کو آ کر بتائو۔اسی قسم کی جاسوسی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ،حضرت اسماؓ نے کفار خواتین کی گفتگو سن کر انجام دی۔انہیں دنیائے اسلام کی پہلی مسلم سراغ رساں خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓکے غلام ،عامر بھی کفار کی سن گن لیتے رہے۔
یوں ان تین مخبروں کی مدد سے حضور اکرمؐ کو جو معلومات ملیں ،ان کے ذریعے آپ ﷺنہ صرف دشمن کے منصوبوں اور چالوں سے باخبر رہے بلکہ انہیں ناکام بھی بنا دیا۔ مدینہ منورہ میں مقیم ہونے کے بعد حضور اکرمؐ اور صحابہ کرام نے اپنے دفاع اور دشمنوں کے عزائم سے باخبر ہونے کی خاطر سب سے زیادہ شعبہ انٹیلی جنس ہی سے مدد لی۔یوں دشمنوں کی چالو ںکا توڑ کر کے مسلمان اپنے آپ کو مضبوط بناتے چلے گئے۔آخر وہ تاریخی وقت آ پہنچا جب پورے عرب میں اسلام کا نور پھیل گیا۔ سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے آنے والی اسلامی حکومتوں نے بھی منظم و مربوط انٹیلی جنس یونٹ قائم کیے۔
درحقیقت وہ ہر اسلامی مملکت کی دفاعی جنگ میں فوج کے کان،آنکھ اور بازو بن گئے۔ سراغ رسانوں،جاسوسوں اور مخبروں پہ مشتمل یہ وسیع نیٹ ورک دشمنوں کو غالب نہ آنے دیتے۔ رفتہ رفتہ جب یہی شعبہ جاسوسی کمزور ہوئے، تو یہ امر بھی اسلامی سلطنتوں کے زوال کا اہم سبب بن گیا۔ انگریز کا نظام ِجاسوسی انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے اسلامی ہندوستان میں قدم جمائے تو وہ تعداد میں بہت کم تھے۔اسی لیے انہیں اپنے انٹیلی جنس یونٹوں میں مقامی باشندے بھرتی کرنے پڑے۔انگریز استعمار نے البتہ یہ جدت اپنائی کہ اس کے ہندو اور مسلم ایجنٹ عموماً اپنے اپنے مذہبی گروہوں ہی میں جاسوسی کرتے ۔ہندوستان میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے انگریزوں نے بڑا جامع انٹیلی جنس نیٹ ورک تشکیل دیا۔
اسی باعث ملک میں آزادی کے کئی منصوبے مثلاً تحریک ریشمی رومال کامیاب نہیں ہو سکے۔ بیسویں صدی تک ’’آئی بی‘‘ (آل انڈیا انٹیلی جنس بیورو)برطانوی ہند حکومت کی بنیادی خفیہ ایجنسی بن گئی۔ اس کاانتظام پولیس افسروں کے ہاتھوں میں تھا۔اس ایجنسی کے سویلین مخبر و جاسوس قصبات اور دیہات تک پھیلے ہوئے تھے۔آئی بی کی ذمے داری تھی کہ وہ حریت پسندوں پر نظر رکھے تاکہ وہ انگریز استعمار کے خلاف منصوبے نہ بنا سکیں۔برطانوی ہند حکومت نے ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس)بھی بنا رکھی تھی مگر اس خفیہ ایجنسی کا دائرہ کار صرف فوج تک محدود تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں انٹیلی جنس سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں۔جرمن اور جاپانی خفیہ ایجنسیوں کی چالوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر انگریزوں نے مزید خفیہ ادارے قائم کیے جن میں’’ ایس او ای‘‘ (سپیشل آپریشن ایگزیکٹو)نمایاں ہے۔اسی خفیہ ایجنسی کے ہندوستانی و برطانوی ایجنٹوں نے برما میں جاپانیوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کیں اور انھیں وہاں مستحکم نہیں ہونے دیا۔ بھارت کی انگلیاں گھی میں اگست 1947ء میں ہندوستان دو مملکتوں …بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔تب برطانوی ہند حکومت کی ملکیت ہر شے کا بھی بٹوارہ ہوا۔بھارتی فوج یوں فائدے میں رہی کہ اسے دہلی میںافواج ِ برطانوی ہند کا جما جمایا ہیڈ کوارٹر مل گیا۔وہیں ایم آئی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کا انفراسٹرکچر بھی مربوط حالت میں تھا۔یوں نو زائیدہ بھارتی حکومت کو اپنا انٹیلی جنس نظام کھڑا کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔
دوسری طرف حکومت پاکستان کو نئے سرے سے اپنا انٹیلی جنس شعبہ تعمیر کرنا پڑا۔ تب ملکی وسائل ہی کم نہ تھے،بلکہ تجربے کار ماہرین جاسوسی کا بھی فقدان تھا۔بہرحال حکومت برطانوی ہند کی آئی بی میں شامل جو مسلمان افسرو ماہرین پاکستان آئے ،انہی پر مشتمل پاکستانی ’’آئی بی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔یہ وطن عزیز کی پہلی انٹیلی جنس ایجنسی تھی ۔ بدقسمتی سے جنگ کشمیر(1947ء )میں آئی بی دشمن کے خلاف موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔چناں چہ بھارتی مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔
اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی آئی بی کے افسر و کارکن اندرون ملک انٹیلی جنس معاملات کا تجربہ رکھتے تھے۔جب غیرملکی سرزمین پہ انھیں سراغ رسانی کی حساس و نفیس ترین سرگرمیاں انجام دینا پڑیں ،تو ناتجربہ کاری کے باعث وہ ان کو صحیح طرح نہ نبھا سکے۔سو پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ دشمن کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کی خاطر نئے خفیہ ادارے قائم کیے جائیں۔ خاک سے نیا ڈھانچا بنانا پڑا قیام پاکستان کے وقت شعبہ جاسوسی سے متعلق صرف ایک تربیتی ادارہ’’اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس‘‘پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حصے میں آیا۔یہ تب تک کراچی سے مری منتقل ہو چکا تھا
۔اس کے پہلے پاکستانی کمانڈر،کیپٹن اختر عالم مقرر ہوئے۔دسمبر 1947ء میں انٹیلی جنس کا وسیع تجربہ رکھنے والے مسلم فوجی افسر،میجر محمد ظہیر الدین کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔اسی اسکول میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں میں اپنے فرائض انجام دینے والے اولیّں افسروں اور ماہرین نے جاسوسی و سراغ رسانی کی تربیت پائی اور دفاع ِوطن کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا،ابتداً پاک افواج بے سر وسامانی کی حالت میں تھیں۔سو دفاع کا سارا ڈھانچا اور انفراسٹرکچر اصلتاً خاک سے نئے طور پہ تخلیق کرنا پڑا۔اسی لیے پہلے پہل ملٹری انٹیلی جنس سے متعلق معاملات شعبہ ایم او(ملٹری آپریشنز)کو سونپ دئیے گئے جس کی قیادت بریگیڈئر محمد شیر خان کر رہے تھے۔
تجربے کار افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔صورت حال کی گھمبیرتا کا اندازہ یوں لگائیے کہ آزادی کے سمّے پاک فوج میں صرف ایک میجر جنرل،دو بریگیڈئر اور ترپین(53)کرنل موجود تھے۔ آخر اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس سے تربیت پانے والے ماہرین کا پہلا دستہ نکلا،تو مارچ 1948ء میں ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس) کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے پہلے سربراہ مایہ ناز مسلم فوجی افسر،کرنل محمد عبدالطیف خان بنائے گئے۔یوں ان کی ان تھک رہنمائی میں ہماری ایم آئی کا بے مثال سفر شروع ہوا۔اس کے بعد جلدہی ایک اور شاندارخفیہ ادارے ،انٹر سروسز انٹیلی جنس کا قیام عمل میں آیا جو آج بہ حیثیت ’’آئی ایس آئی‘‘ جانا جاتا ہے…
وہ خفیہ ادارہ جس کا نام سنتے ہی دشمن خوف سے تھّرا اٹھتا ہے۔ پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں صد افسوس کہ کم از کم دنیائے انٹرنیٹ پہ ان نامورپاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے قیام کا سہرا ایک غیرملکی فوجی افسر،والٹر کائوتھورن کے سر باندھ دیا گیا۔سچ یہ ہے کہ آئی بی،ایم آئی اور ایس آئی ایس…ان تینوں خفیہ اداروں کے نوزائیدہ پودے پاکستانی افسروں و جوانوں نے ہی محنت و مشقت سے پروان چڑھائے اور اپنا لہو دے کر انھیں توانا و مضبوط درخت بنایا۔یہ کہنا کہ کسی غیر ملکی فوجی افسر نے قومی انٹیلی جنس اداروں کی بنیادیں رکھیں، درحقیقت اولیّں پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں اور محنت رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ آئی ایس آئی کے قیام کی تجویز بانی پاکستان،قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن ِرسا کی تخلیق ہو۔قائد دفاعِ وطن کو جتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے،وہ ان کی تقاریر کے اقتباسات سے عیاں ہے۔چناں چہ ہو سکتا ہے کہ کسی روشن لمحے انھیں خیال آیا ، ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو تینوں مسلح افواج(برّی،فضائی اور بحری)کے انٹیلی جنس معاملات کو باہم مربوط و منضبط کر دے۔بہرحال پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ اوائل 1948ء میں پاک فوج کے کمانڈر،جنرل ڈگلس گریسی اور وزیر دفاع،اسکندر مرزا نے والٹر کائوتھورن کو ہدایت دی کہ وہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کر لیں۔ والٹر کائوتھورن (1896ء۔1970ء )برطانوی نہیں آسٹریلوی شہری تھے۔پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانوی فوج میں شامل ہوئے۔
بعد ازاں برطانوی ہند فوج کی16 پنجاب رجمنٹ میں چلے آئے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران مقامی ایم آئی کے چیف رہے۔جیمز بانڈ کے خالق برطانوی ادیب،آئن فلیمنگ کا بھائی،پیٹر فلیمنگ ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔وہ ایک ماہر جاسوس تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو کائوتھورن نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔دراصل ان کے بیشتر دوست مسلم فوجی افسر تھے۔جب وہ پاکستان چلے گئے،تو انھوں نے بھی اس نوزائیدہ مملکت کو اپنا نیا وطن بنا لیا۔1948ء میں آپ کو ڈپٹی چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا۔اسی عہدے کی مناسبت سے کائوتھورن کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر وہ تمام مطلوبہ کارروائی کر لیں ۔وہ بعد ازاں دسمبر 1951 ء میں آسٹریلیا چلے گئے تاکہ وہاں کے انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہو سکیں۔
مگر عملی طور پہ آئی ایس آئی کو بطور ادارہ کھڑاکرنے کی ذمے داری کرنل شاہد حامد کو سونپی گئی۔تب کرنل صاحب پاکستان نیشنل گارڈز کے کمانڈر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔انھیں نئی ذمے داری ملی ،تو فوراً نئے محاذ پہ جت گئے۔ کریٹ کی بنی میز کرسیاں کراچی میں عبداللہ ہارون روڈ اور غلام حسین ہدایت اللہ روڈ کے سنگم پہ ،زینب مارکیٹ کے سامنے ایک پرانی ،چھوٹی سے یک منزلہ عمارت واقع تھی۔اسی عمارت میں آئی ایس آئی کا پہلا ہیڈکوارٹر قائم ہوا۔(وہاں اب نئی تعمیر شدہ عمارت میں ایک نجی کمپنی کا دفتر کھل چکا)۔14جولائی1948ء کو عمارت میں انٹیلی جنس کا متعلقہ کام باقاعدہ طور پہ شروع ہوا ۔
وطن عزیز کے اس اہم ادارہ ِجاسوسی کا آغاز جن نامساعد حالات میں ہوا،ان کا تذکرہ عیاں کرتا ہے کہ تب انسانی جوش و ولولے اور جذبہ حب الوطنی کی بدولت عجب کرشمے ظہور پذیر ہوئے۔ وسائل اور عملے کی شدید کمی تھی،مگر کرنل شاہد اور ان کے مٹھی بھر ساتھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔انھوں نے لکڑی کے کریٹوں کو بطور میز کرسی استعمال کیا۔اپنے پلّے سے دفتری استعمال کی اشیا خریدنا معمول تھا۔دراصل ان پہ بس یہی دھن سوار تھی کہ نوزائیدہ ادارے کو مستحکم کر کے مملکت کا دفاع زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا دیا جائے۔ تنکا تنکا جمع ہوا آئی ایس آئی میں پہلے پہل صرف تینوں افواج سے منسلک افسر و جوان شامل کیے گئے۔
بعد ازاں سویلین عملہ بھی بھرتی کیا جانے لگا۔ان میں بیشتر افراد پولیس سے لیے جاتے۔آئی بی کے دو ڈائرکٹروں،سید کاظم رضا اور غلام محمد نے آئی ایس آئی کے اولیّں ریکروٹوں کو انٹیلی جنس کے اسرارورموز سکھانے میں بڑی جانفشانی دکھائی۔یوں تنکا تنکا جمع کر کے ایسا قوی لٹھ تیار کیا جانے لگا جسے دشمن کے سر پہ مارا جا سکے۔ کرنل شاہد حامد کی ذمے داری تھی کہ وہ ایجنسی کی سرگرمیوں کی رپورٹ مسلح افواج کے سربراہوں کو ارسال کریں۔ان کے نائب(جنرل سٹاف آفیسر)میجر صاحب زادہ یعقوب علی خان تھے جو بعد لیفٹیننٹ جنرل بنے اور وزیر خارجہ پاکستان رہے۔ آئی ایس آئی کی بنیادیں مضبوط کرنے میں میجر محمد ظہیر الدین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جولائی 1948ء ہی میں انھیں بھی اسکول آف انٹیلی جنس سے آئی ایس آئی منتقل کر دیا گیا۔وہ سراغ رسانی کے معاملات میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔
ایجنسی کے اولیّں افسروں نے بھی ان کے تجربے سے خوب فائدہ اٹھایا۔افسوس کہ ظہیر الدین کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ ہوا یہ کہ 1950ء میں انھیں ترقی دے کر ایم آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔مارچ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس سامنے آ گیا۔یہ سازش پولیس افسروں نے دریافت کی تھی۔اسی لیے ڈی جی ایم آئی،ظہیر الدین کو سازش پکڑنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔(انھیں اپنے چیف آف جنرل سٹاف،میجر جنرل محمد اکبر خان پہ نظر رکھنا تھی کیونکہ اس زمانے میں ایم آئی انہی کے ماتحت تھی۔)نتیجتہً کمانڈر پاک فوج،جنرل ایوب خان نے انھیں برخاست کر دیا۔اس اقدام سے ظہیر الدین بہت زیادہ افسردہ و دل گرفتہ ہوئے ۔ ایوب خان کا دور کرنل شاہد حامد نے دو برس تک ڈی جی آئی ایس آئی کی ذمے داری نبھائی۔
چونکہ وہ میدان جنگ میں جانے کے خواہشمند تھے،سو جون 1951ء میں انھیں بریگیڈیر بنا کر 100 بریگیڈ(پشاور)کی کمان سونپ دی گئی۔ڈی جی کا عہدہ پھر شوریدہ سر سیاسی حالات کے باعث طویل عرصہ خالی رہا۔اکتوبر1958 ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا ،تو انھوں نے بریگیڈیر ریاض حسین کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا۔دنیائے انٹرنیٹ کے مشہور انسائیکلوپیڈیا،وکی پیڈیا میںنجانے کس نے یہ دُرفطنی چھوڑ دی کہ میجر جنرل کائوتھورن 1951ء تا 1959 ء آئی ایس آئی کے ڈی جی رہے۔اس واسطے انجان لوگ انہی کو اس قومی ادارے کا خالق سمجھنے لگے ہیں۔ شروع میں آئی ایس آئی دشمن کی سراغ رسانی کرنے اور اس کے منصوبے خاک میں ملانے پہ مامور تھی۔