اسلام آباد (ایکسکلو ژو رپورٹ )ملک ممتاز حسین قادری اعوان پاکستان کی پنجاب پولیس کے کمانڈو یونٹ ایلیٹ فورس کے ایک سپاہی تھے جو گورنر پنجاب سلمان تاثیرکے سرکاری محافظوں میں شامل تھے۔انہوں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی جانب سے قانون توہین رسالت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے پر اس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا جس کے بعد ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 2011ء4 میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی۔
سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015ء میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا اور اسی فیصلے کو دسمبر 2015ء میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھااور یوں ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو سزائے موت دے دی گئی۔اہلسنت والجماعت کے معروف مذہبی سکالر مولانا خادم حسین رضوی نے عوام کے جم غفیر کو ممتاز قادری کا ایک واقعہ سنایا، بتانے لگے کہ ممتازقادری کو پھانسی دیدی گئی اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے لگا جو بڑھتے بڑھتے ڈی چوک پر دھرنے کی شکل اختیار کر گیا تو ممتاز قادری کے والد ان کو پانی پلانے کی کوششیں کرنے لگے۔ انکا کام تھا کہ گاڑی میں پانی کی بوتلیں بھرتے اور ڈی چوک میں لے جا کر دھرنے والوں کو پلاتے ۔ ایک روز انہوں نے بوتلوں میں پانی بھرا اور کار میں بھر کر لے جا رہے تھے کہ پولیس نے ان کی گاڑی پکڑ لی اور بند کر دی ۔ ممتاز قادری کے والد افسردہ ہو کر بیٹے کی قبر پر پہنچے اور کہا کہ بیٹا دیکھو تمہاری محبت میں لوگ یہاں آئے ہیں اب اگر بھوک اور پیاس کی حالت میں انہیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا ؟ ان کے والد بتاتے ہیں کہ اس لمحے ممتاز کی قبر سے 2تلواریں باہر آئیں اور ممتاز کی آواز سنائی دی کہ بابا جان آپ پریشان نہ ہوں ، کل فیصلہ ہو جائے گا اور اگلے روز دھرنا ختم ہو گیا۔