بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

خانہ کعبہ پر حملہ!

datetime 31  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کعبہ کی عظمت اور لوگوں کی اس کی عقیدت سے جل کر یمن کے گورنر ابرہہ ارادہ کیا کہ یمن میں ایسا شاندار کنیسہ بنائے جس کی نظیر دنیا میں نہ ہو۔ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ یمن کے عرب لوگ جوحج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں یہ لوگ اس کنیسہ کی عظمت و شوکت سے مرعوب ہوکر کعبہ کے بجائے کنیسہ میں جانے لگیں، اسی خیال پر اس نے بہت بڑا عالیشان کنیسہ اتنا اونچا تعمیر کیا کہ اس کی بلندی پر نیچے کھڑا ہوا آدمی نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور

اس کو سونے چاندی اور جواہرات سے مرصع کیا اور پوری مملکت میں اعلان کرا دیا کہ اب یمن سے کوئی کعبہ کے حج کے لیے نہ جائے اس کنیسہ میں عبادت کرے۔ عرب میں اگرچہ بت پرستی غالب آگئی تھی مگر دین ابراہیم اور کعبہ کی عظمت و محبت ان کے دلوں میں پیوست تھی اس لیے عدنان اور قحطان اور قریش کے قبائل میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے رات کے وقت کنیسہ میں داخل ہوکر اس کو گندگی سے آلودہ کردیا اور بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے مسافر قبیلہ کنیسہ کے قریب اپنی ضروریات کے لیے آگ جلائی اس کی آگ کنیسہ میں لگ گئی اور اس کو سخت نقصان پہنچ گیا۔ابرہہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی اور بتلایا گیا کہ کسی قریش نے یہ کام کیا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں ان کے کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رہونگا، ابرہہ نے اس کی تیاری شروع کی اور اپنے بادشاہ سے اجازت مانگی اس نے اپنا خاص ہاتھی کہ جس کانام محمود تھا ابرہہ کے لیے بھیج دیا کہ وہ اس پر سوار ہو کر کعبہ پر حملہ کرے بعض روایات میں ہے کہ یہ سب سے بڑا عظیم الشان ہاتھی تھا جس کی نظیر نہیں پائی جاتی تھی اور اس کے ساتھ آٹھ ہاتھی دوسرے بھی اس لشکر کے لیے بادشاہ نے بھیجدیئے تھے۔ ہاتھیوں کی یہ تعداد بھیجنے کا منشاء یہ تھا کہ بیت اللہ کعبہ کے ڈھانے میں ہاتھیوں سے کام لیا جائے۔ تجویز یہ تھی کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور طویل زنجیریں باندھ کر ان زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھیں اور انکو ہنکادیں تو سارا بیت اللہ ( معاذاللہ) فوراً ہی زمین پر آگرے گا۔عرب میں جب اس کے حملے کی خبر پھیلی تو سارا عرب مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔ یمن کے عربوں میں ایک شخص ذونفرنامی تھا اس نے عربوں کی قیادت اختیار کی اور عرب لوگ اس کے گرد جمع ہوکر مقابلہ کے لیے تیار ہوگئے اور ابرہہ کے خلاف جنگ کی مگر اللہ کو تو یہ منظور تھا کہ ابرہہ کی شکست اور اس کی رسوائی نمایاں ہوکر دنیا کے سامنے آئے اس لیے یہ عرب مقابلے میں کامیاب نہ ہوئے، ابرہہ نے ان کوشکست دیدی اور ذونفر کو قید کرلیا اور آگے روانہ ہوگیا اس کے بعد جب وہ قبیلہ خثعم کے مقام پر پہنچا تو اس قبیلہ کے سردار نفیل بن حبیب نے پورے قبیلہ کے ساتھ ابرہہ کا مقابلہ کیا مگر ابرہہ کے لشکر نے ان کو بھی شکست دیدی اور نفیل بن حبیب کو بھی قید کرلیا اور ارادہ ان کے قتل کا کیا مگر پھر یہ سمجھ کران کو زندہ رکھا کہ ان سے ہم راستوں کا پتہ معلوم کرلیں گے،

اس کے بعدجب یہ لشکر طائف کے قریب پہنچا تو طائف کے باشندے قبیلہ ثقیف پچھلے قبائل کی جنگ اور ابرہہ کی فتح کے واقعات سن چکے تھے انھوں نے اپنی خیر منانے کا فیصلہ کیا اور یہ کہ طائف میں جو ہم نے ایک عظیم الشان بت خانہ لات کے نام سے بنا رکھا ہے یہ اس کو نہ چھیڑے تو ہم اس کا مقابلہ نہ کریں، انھوں نے ابرہہ سے مل کر یہ بھی طے کرلیا کہ ہم تمھاری امداد اور رہنمائی کے لیے اپنا ایک سردار ابورغال تمھارے ساتھ بھیج دیتے ہیں ابرہہ اس پر راضی ہوکر ابورغال کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام مغمس پر پہنچ گیا جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے،

ابرہہ کے لشکر نےسب سے پہلے ان پر حملہ کرکے اونٹ گرفتار کرلیے جن میں دو سو اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب رئیس قریش کے بھی تھے ابرہہ نے یہاں پہنچ کر اپنا ایک سفیر حناطہ حمیری کو شہر مکہ میں بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جاکراطلاع کردے کہ ہم تم سے جنگ کے لیے نہیں آئے، ہمارا مقصد کعبہ کو ڈھانا ہے اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ حناطہ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سب نے اس کو عبدالمطلب کا پتہ دیا کہ وہ سب سے بڑے سردار قریش کے ہیں حناطہ نے عبدالمطلب سے گفتگو کی اور ابرہہ کا پیغام پہنچا دیا۔ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق عبدالمطلب نے یہ جواب دیا کہ ہم بھی ابرہہ سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے،

نہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔ البتہ میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ یہ اللہ کا گھر اور اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اللہ سے جنگ کا ارادہ تو جو چاہے کرے پھر دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ تو پھر آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ابرہہ سے ملاتا ہوں۔ ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجیہ آدمی ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اترکر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو اپنے برابر بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کس غرض سے آئے ہیں،

عبدالمطلب نے کہا کہ میری ضرورت تو اتنی ہے کہ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر نے گرفتار کر لیے ہیں ان کو چھوڑ دیں۔ ابرہہ نے ترجمان کے ذریعہ عبدالمطلب سے کہا کہ جب میں نے آپ کو اول دیکھا تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت و عزت ہوئی مگر آپ کی گفتگو نے اس کو بالکل ختم کردیا کہ آپ مجھ سے صرف اپنے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ میں آپ کا کعبہ جو آپ کا دین ہے اس کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں اس کے متعلق آپ نے کوئی گفتگو نہیں کی۔

عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں مجھے ان کی فکر ہوئی اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمھارا خدا اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمھیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ اور بعض روایات میں ہے کہ عبدالمطلب کے ساتھ اور بھی قریش کے چند سردار گئے تھے اور انہوں نے ابرہہ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بیت اللہ پردست اندازی نہ کریں

اور لوٹ جائیں تو ہم پورے تہامہ کی ایک تہائی پیداوار آپ کو بطور خراج ادا کرتے رہیں گے مگر ابرہہ نے اس کے ماننے سے انکار کردیا۔ عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ نے واپس کردیئے وہ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے تو بیت اللہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر دعاء میں مشغول ہوئے اور قریش کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی سب نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ ابرہہ کے عظیم لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے بیت کی حفاظت کا انتظام فرمادیں، الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنے کے بعد عبدالمطلب مکہ مکرمہ کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر مختلف پہاڑوں پر پھیل گئے ان کو یہ یقین تھا کہ اس لشکر پر اللہ کا عذاب آئے گا، اسی یقین کی بنا پر انھوں نے ابرہہ سے خود اپنے اونٹوں کا مطالبہ کیا،

بیت اللہ کے متعلق گفتگو کرنا اس لیے پسند نہ کیا کہ خود تو اس کے مقابلے کی طاقت نہ تھی اور دوسری طرف یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بے بسی پر رحم فرما کر دشمن کی قوت اور اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ صبح ہوئی تو ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی محمود نامی کو آگے چلنے کے لیےتیار کیا۔ نفیل بن حبیب جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا اس وقت وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کا کان پکڑ کر کہنے لگے تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیونکہ اللہ کے بلد امین ( محفوظ شہر) میں ہے یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا، ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانا چلانا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا،

اس کو بڑے بڑے آہنی تبروں سے مارا گیا، اس کی بھی پرواہ نہ کی، اس کی ناک میں آنکڑا لوہے کا ڈالدیا پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا، اس وقت ان لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا تو فوراً کھڑا ہوگیا پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرمہ کی طرف چلانے لگے تو بیٹھ گیا۔قدرت حق جل شانہ، کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کے برابر تھیں ایک چونچ میں اور دوپنجوں میں واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے،

جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لیےآتے دکھائی دیتے اور فوراً ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکریں جو ہرایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو بندوق کی گولی بھی نہیں کرسکتی، کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ کھڑے ہوئے، صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکری سے ہلاک ہوا اور لشکر کے سب آدمی اسی موقع پر ہلاک نہیں ہوئے بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے ان سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مرمرکر گرگئے۔

ابرہہ کو چونکہ سخت سزا دینا تھی وہ فوراً ہلاک نہیں ہوا مگر اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑکر گرنے لگا اسی حال میں اس کو واپس یمن لایا گیا، دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بہ گیا اور مرگیا۔ ابرہہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان یہیں مکہ مکرمہ میں رہ گئے مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہج ہوگئے تھے۔ محمد بن اسحٰق نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اندھے اور اپاہج تھے اور حضرت عائشہ صدیقہ کی بہن اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے دونوں اپاہج اندھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔
(معارف القرآن جلد۸ صفحہ۸۱۷، سورۃ الفیل: آیت۱)

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…