رات کی تاریکی چھا چکی تھی اور مکہ اپنی گھاٹیوں کے ساتھ تاریک اندھیرے میں چھپ چکا تھا، اس دوران قرشی نوجوان علیؓ نے اپنی لاٹھی کندھے پر ڈالی اور رات کے اندھیرے میں لوگوں سے چھپ چھپا کر رختِ سفر باندھا۔ بعد اس کے کہ آپؓ تین روز تک ان امانتوں کی ادائیگی کے لیے جو نبی اکرمؐ نے آپؓ کے حوالہ کی تھیں، مکہ میں مقیم رہے۔ وہ نوجوان بلاتردد اور بلا خوف جرأت مندی کے ساتھ سفر طے کرتا رہا، رات کو سفر کرتے اور دن کو کہیں روپوش ہو جاتے حتیٰ کہ آپؓ مدینہ کے قریب پہنچ گئے حال یہ تھا کہ پاؤں مبارک سوج گئے
اور پھٹ گئے تھے۔ جب نبی کریمؐ کو آپؓ کی آمد کا علم ہوا تو فرمایا: علیؓ کو میرے پاس بلاؤ۔ عرض کیا گیا کہ وہ تو پیدل نہیں چل سکتے، زیادہ چلنے کی وجہ سے ان کے پاؤں متورم ہیں، چنانچہ خود نبی اکرمؐ ان کے پاس تشریف لے گئے، آپؐ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ زمین پر پڑے ہیں۔ آپؐ جذبۂ شفقت و رحمت سے رونے لگے اور شوق سے گلے لگایا۔ پھر آنخضورؐ نے اپنے دست مبارک میں لعاب دہن ڈال کر حضرت علیؓ کے قدموں کو لگا دیا تو وہ اس سے بالکل ٹھیک ہو گئے، پھر حضرت علیؓ کو تادمِ حیات اپنے قدموں میں تکلیف نہیں ہوئی تھی۔