غزوۂ احد میں لڑائی کے انگارے برس رہے تھے، مشرکین کی نعشیں بہادروں کی تلواروں کی زد میں آ کر اِدھر اُدھر بکھر رہی تھیں اور موت سروں پر منڈلا رہی تھی، اتنے میں حضرت علیؓ مسلمانوں کے علمبردار ہوئے تو مشرکین کے علمبردار ابو سعد بن ابی طلحہ نے ان کو دیکھا اور اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا میدانِ جنگ کے بیچ میں پہنچا جہاں گردنیں اڑ رہی تھیں اور فخریہ انداز میں کہنے لگا: کیا کوئی مردِمیدان ہے؟
کسی نے جواب نہیں دیا، اس نے غرور و تکبر کے لہجہ میں پکارا۔ کیا تم یہ نہیں کہتے کہ تمہارے مقتول جنت میں اور ہمارے مقتول دوزخ میں جائیں گے، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ میری تلوار کے ذریعے جنت میں چلا جائے یا میں اس کی تلوار سے دوزخ میں چلا جاؤں؟ حضرت علیؓ نے اس مشرک ابو سعد بن ابی طلحہ کی پکار کا جواب دیتے ہوئے کہا: اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس وقت تک تجھ سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ تو مجھے اپنی تلوار سے جنت میں نہ پہنچا دے یا میں تجھے اپنی تلوار سے جہنم رسید نہ کر دوں۔ دونوں میدانِ کارزار میں نکلے دونوں کا مقابلہ ہوا دونوں نے اپنے اپنے وار کیے مگر حضرت علیؓ نے تلوار کی ایک ضرب لگائی اور اس کی ٹانگ کاٹ دی، اور وہ زمین پر گر پڑا اور ابوسعد برہنہ ہوگیا۔ پھر وہ ملتجی ہوا: اے ابن عم! میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں اور تجھ سے رحم کی درخواست کرتا ہوں، حضرت علیؓ نے اس کو چھوڑ دیا، حضورِ اکرمؐ نے اللہ اکبر کہا، حضرت علیؓ کے ساتھیوں نے پوچھا: بھلا آپؓ نے اس کو کیوں چھوڑ دیا، اس کا کام ہی تمام کر دیتے؟ حضرت علیؓ نے ان کو جواب دیا کہ میرے سامنے اس کا ستر کھل گیا تھا اور اس نے مجھ سے رحم کی اپیل بھی کی تھی۔