حضرت مفتی محمد حسن صاحبؒ مشہور دینی مدرسہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی اور حضرت تھانویؒ کے اجل خلفاء میں سے ہیں، ان کی زندگی کا ایک غیر معمولی واقعہ ان کی ٹانگ کے آپریشن سے تعلق رکھتا ہے، کولہا سے ٹانگ کا آپریشن ہوتا ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز سرجن ڈاکٹر امیر الدین جنہیں ایشیا بھر میں معروف سرجن کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا،
آپریشن کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب کا قطعی فیصلہ ہے کہ نہ تو انہیں بیہوش کرنا ہے اور نہ کسی صورت مقامی طور پر کسی دوائی کااستعمال کرنا ہے جو اس خاص حصہ کو آپریشن کی تکلیف سے وقتی طور پر بچا سکے۔حضرت مفتی صاحب اپنے عقیدت مند ڈاکٹروں سرجن امیرالدین اور کرنل ضیاء اللہ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں ’’میں کچھ پڑھنا شروع کرتا ہوں جب یہ ورد ختم ہو جائے تو تم اپنا کام (آپریشن) شروع کر دینا‘‘۔ اس حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔ آپریشن کے دوران حضرت مفتی صاحب بقائمی ہوش و حواس انتہائی پرسکون انداز میں لیٹے ہوئے ہیں۔ سرجن امیرالدین آپریشن میں مصروف ہیں اور کرنل ضیاء اللہ حضرت مفتی صاحب کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ مفتی صاحب نے آپریشن کے دوران ’’سی‘‘ تک نہیں کی۔ آپریشن میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔ آپریشن کے وقت ڈاکٹر کا ہاتھ آپؒ کی نبض پر تھا اس کا بیان ہے کہ ’’حیرت ہے کہ آپریشن کے شروع سے اختتام تک نبض کی رفتار میں سرمو فرق نہیں آیا، اس آپریشن کے بعد ایسا تکلیف دہ درد ہوتا ہے کہ اس کی شدت کا پہاڑ جیسے مضبوط دل والا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا مگر مفتی صاحب جس بشاشت کے ساتھ آپریشن کے کمرے میں داخل ہوئے تھے، اسی بشاشت کے ساتھ اس طرح واپس ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔