امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک ایک عورت کی خبر پہنچی جس کا خاوند سفر پر گیا ہوا تھا کہ وہ عورت، مردوں سے زیادہ باتیں کرتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور اس عورت تک پیغام بھیج دیا اور اس کو بلا لیا۔ اس عورت نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو میرے کام سے کیا تعلق ہے؟
وہ کون ہوتا ہے؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہونے کے لئے چلی تو راستہ میں دردِ زہ میں گرفتار ہو گئی، گھر واپس آئی اور بچہ جنا، بچے نے پیدا ہوتے ہی دو چیخیں ماریں اور دم توڑ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصحاب نبیﷺ سے اس بارے مشورہ لیا تو بعضوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے اوپر کچھ نہیں آتا، آپ تو والی اور مودب ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خاموش تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قریب گئے جو خاموش بیٹھے تھے، پوچھا آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر ن لوگوں نے اپنی رائے دی ہے تو غلط رائے دی ہے اور اگر آپ کی خواہش کے احترام میں کچھ کہا ہے تو انہوں نے آپ کے ساتھ خیرخواہی نہیں کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس کی دیت (خون بہا) آپ کے ذمہ ہے۔ کیونکہ آپ نے اس عورت کو گھبراہٹ میں مبتلا کیا تھا، وہ گھبرائی اور آپ کے پاس آتے ہوئے بچہ جنم دیا چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی دیت ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس کی دیت قریش کے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔