مولانا عاشق الٰہی صاحب بلند شہری تحریر فرماتے ہیں:’’آج کل معاشرہ میں یہ چیز زیادہ مقبول ہو رہی ہے کہ لڑکوں کو لڑکیوں کا لباس اور لڑکیوں کو لڑکوں کا لباس پہناتے ہیں اور نوجوان مرد عورت اس سیلاب کے بہاؤ میں بہہ رہے ہیں، یہ طرز بھی یورپ اور امریکہ کے تابکاروں سے شروع ہوا ہے، ان کے نزدیک یہ فیشن اور فخر کی چیز ہے۔ ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ کسی جگہ دعوت تھی، مرد اور عورت ایک ہی جگہ موجود تھے، ایک نو عمر
کو دیکھا گیا کہ رواج کے مطابق میز پر کھانا لگا رہا ہے، کسی کی زبان سے یہ نکل گیا کہ ’’لڑکا بڑا ہونہار ہے، سلیقہ مندی سے کام کر رہا ہے‘‘۔ اس پر پیچھے سے آواز آئی کہ ’’میاں کیا فرما رہے ہیں، یہ لڑکا نہیں، میری لڑکی ہے‘‘ ان صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک نظر ڈال کر کہا ’’معاف کیجئے، مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اس کی والدہ ہیں‘‘ اس نے فوراً جواب دیا کہ میاں! آپ صحیح دیکھا کیجئے، میں والدہ نہیں، اس کا والد ہوں‘‘۔