حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی بات میں اختلاف ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چلو! کسی کو اپنا ثالث مقرر کر لیتے ہیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کو قبول کرتے ہوئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ثالث بنانا تجویزکیا، چنانچہ وہ دونوں حضرات حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنا ایک فیصلہ کروانے آئے ہیں حالانکہ دوسرے لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنے فیصلے کروانے آتے تھے۔ جب وہ دونوں ان کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کے لئے اپنا فراش کشادہ کیا اور ہاتھ کے اشارہ سے کہا کہ اے امیر المومنین! یہاں تشریف رکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا چہرہ متغیر ہو گیا اور فرمایا، یہ تم نے اپنے فیصلہ میں پہلا ظلم کیا ہے، میں اپنے فریق مخالف کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے (کسی بات کا ) دعویٰ کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے پرامید ہو کر حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ امیرالمومنین کو قسم سے بری کر دیں اور میں ان کے سوا اور کسی کے لئے اس کی درخواست نہیں کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جاتے ہوئے فوراً قسم کھا لی پھر دوبارہ قسم کھائی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اس فیصلے کا ادراک نہیں ہو پا رہا تھا کہ ان کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عام مسلمان آدمی برابر ہو گیا۔