حضرت عمران بن الحصینؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ ایک ناسور پھوڑے کے اندر بتیس سال مبتلا رہے ہیں جو پہلو میں تھا وہ چت لیتے رہتے تھے، کروٹ نہیں لے سکتے تھے۔ یعنی بتیس برس تک چت لیٹے کھانا بھی، پینا بھی، عبادت کرنا بھی، قضائے حاجت کرنا بھی۔آپ اندازہ کیجئے بتیس برس ایک انسان ایک پہلو پر پڑا رہے، اس پر کتنی عظیم تکلیف ہوگی؟ کتنی بڑی بیماری ہے؟
یہ تو بیماری کی کیفیت تھی۔ لیکن چہرہ اتنا ہشاش بشاش کہ کسی تندرست کو وہ چہرہ میسر نہیں، لوگوں کو حیرت ہوتی کہ بیماری اتنی شدید کہ برس گزر گئے کروٹ نہیں بدل سکتے اور چہرہ دیکھو تو ایسا کھلا ہوا کہ تندرستوں کو بھی میسر نہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت! یہ کیابات ہے کہ بیماری تو اتنی شدید اور آپ کے چہرے پر اتنی بشاشت اور تازگی کہ کسی تندرست کو بھی نصیب نہیں؟ فرمایا:جب بیماری میرے اوپر آئی میں نے صبر کیا، میں نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لیے عطیہ ہے، اس نے میرے لیے یہی مصلحت سمجھی۔میں بھی اس پر راضی ہوں۔ اس صبر کا اللہ نے مجھے یہ پھل دیا کہ میں اپنے بستر پر روزانہ ملائکہ سے مصافحے کرتا ہوں۔ مجھے عالم غیب کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ غریب میرے اوپر کھلا ہوا ہے تو جس بیمار کے اوپر عالم غیب کا انکشاف ہو جائے۔ ملائکہ کی آمد و رفت محسوس ہونے لگے اسے مصیبت ہے کہ وہ تندرستی چاہے؟ اس کے لیے تو بیماری ہزار درجے کی نعمت ہے۔ حاصل یہ کہ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نے تندرست کو تندرستی میں تسلی دی۔ بیمار کو کہا کہ تیری بیماری اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے تو اگر اس میں صبر اور احتساب کرے اور اس حالت پر صابر اور راضی رہے گا تیرے لیے بہت ہی درجات ہیں۔