ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور لوگوں کے ایک کثیر مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’لوگو! عورت کے مہر زیادہ نہ باندھو (آئندہ) مجھے کسی کے متعلق یہ خبر نہ پہنچے کہ اس نے اس مقدار سے زیادہ مہر دیا ہے۔ جس مقدار میں رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے مہر دیا یا اس کی طرف بھیجا گیا ہے۔
اِلاّ یہ کہ میں اس سے زیادہ مقدار بیت المال میں مقرر کروں۔ یہ فرما کر منبر سے نیچے اتر آئے۔ راستہ میں ایک قریش کی عورت نے آپ رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور کہنے لگی۔ اے امیر المومنین! یہ بتائیے! اللہ کی کتاب (قرآن) اتباع کی زیادہ حقدار ہے یا آپ رضی اللہ عنہ کی بات؟ آپؓ نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب ہی اتباع کی زیادہ حق دار ہے لیکن ہوا کیا ہے؟ وہ کہنے لگی ’’آپ رضی اللہ عنہ نے ابھی ابھی لوگوں کو عورتوں کا زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا ہے، حالانکہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے ’’اور اگر تم بجائے ایک بی بی کے دوسری بی بی کرنا چاہو اور تم اس ایک کو انبار کا مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی مت لو (النساء20:)‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر ایک عمر سے زیادہ فقیہ ہے۔ پھر واپس منبر کی طرف تشریف لے گئے اور لوگوں سے فرمایا کہ میں نے تمہیں عورتوں کا مہر مقررہ مقدار سے زیادہ باندھنے سے منع کیا تھا لیکن اب حکم یہ ہے کہ ہر شخص جیسے چاہے اپنے مال میں تصرف کرے۔