امام اعظم ابو حنیفہؒ کے زمانے میں دو عالم تھے۔ ایک کا نام زرعہ قاص تھا اور دوسرے کا نام عمر بن زر تھا۔ یہ چونکہ معمر تھے اس لیے امام اعظمؒ کی والدہ محترمہ ان سے مسئلہ دریافت کرکے مطمئن ہو جاتی تھیں۔ اگر انہیں کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا تو وہ امام اعظمؒ کو فرماتیں کہ مجھے ان کے پاس لے جاؤ، میں ان سے مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ امام صاحبؒ اونٹنی نکالتے۔
اپنی والدہ کو اونٹنی پر بٹھاتے اور خود اونٹنی کی نکیل پکڑ کر پیدل چلتے۔ جب چل رہے ہوتے تھے تو لوگ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ یہ کون ہے، جس کی سواری کی نکیل نعمان (امام اعظمؒ ) پکڑ کر جا رہے ہیں۔ چونکہ حضرت اس وقت استاد بن چکے تھے اور کثیر تعداد میں ان کے شاگرد بھی تھے۔ اس لیے لوگ ان کو دیکھ کر راستے میں ادب کی وجہ سے کھڑے ہو جاتے تھے اور حضرت خاموشی سے چلتے رہتے تھے، جب ان دونوں میں سے کسی ایک کے گھر پہنچتے اور دروازے پر دستک دیتے تو وہ باہر آتے۔ امام صاحبؒ ان کو فرماتے کہ میری والدہ صاحبہ تشریف لائی ہیں اور یہ آپ سے کوئی مسئلہ پوچھنا چاہتی ہیں، جب والدہ صاحبہ مسئلہ پوچھتیں تو کئی مرتبہ ان دونوں کو اس مسئلہ کا جواب نہیں آتا تھا تو وہ امام صاحبؒ سے پوچھتے کہ اس کا جواب کیا ہے۔ امام صاحبؒ آہستہ سی آواز میں ان کو اس مسئلہ کا جواب خود بتا دیتے تھے اور وہ لوگ اونچی آواز سے ان کی والدہ کو جواب سنا دیتے تھے۔ اب والدہ جب ان کی زبان سے سنتیں تو مطمئن ہو جاتیں۔ ساری عمر یہی ہوتا رہا اور امام اعظمؒ نے اپنی والدہ کو یہ بھی نہ کہا۔ امی! جو مسئلہ آپ ان سے پوچھنے کے لیے جائیں گی وہ اس کا جواب مجھ سے پوچھ کر بتائیں گے۔ دراصل امام صاحبؒ نے والدہ کے ادب کا خیال رکھا اور ان کے دل کے سکون کو مقدم رکھا۔ ان کی یہی تواضع تھی جس نے ان کو امام اعظم بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی عزت دی کہ دور صحابہؓ میں ان کا فتویٰ چلتا تھا 120 ھ میں حضرت مسند ارشاد پر بیٹھ چکے تھے اور اس وقت صحابہ کرامؓ دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود تھے۔