حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی انگشتری میں ایک ایسا نگینہ جڑا ہوا تھا، جس کی صحیح قیمت کا اندازہ جوہری بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ ایک دفعہ سخت قحط پڑ گیا۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کو ان حالات کا علم ہوا تو لوگوں کی امداد کے لیے اپنی انگشتری کا وہ قیمتی نگینہ بھی فروخت کر دیا اور جو قیمت ملی اس سے اناج وغیرہ خرید کر تقسیم کردیا۔
جب اس بات کا علم آپ کے خیر خواہوں کو ہوا تو ان میں سے ایک نے آپ سے کہا ’’یہ آپ نے کیا کیا؟ ایسا بیش قیمت نگینہ بیچ دیا؟‘‘حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا۔’’وہ نگینہ مجھے پسند تھا، لیکن مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور میں اپنے آرام و زینت کے سامان کو عزیز رکھوں۔‘‘ یہ فرمایا اور آپ کی آنکھوں سے ہمدردی کی وجہ سے آنسو جاری ہو گئے۔