انسان کے دل کا بھی عجیب حال ہے، کبھی ایک حالت پر نہیں ٹھہرتا، اسی لئے کہا جاتا ہے استقامت ہزار کرامتوں سے فائق ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو مسلمان بڑی تعداد میں بھارت سے پاکستان ہجرت کر رہے تھے، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریاؒ ان دنوں تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین میں تھے،
وہاں کے ایک مولوی صاحب کاواقعہ تحریر فرماتے ہیں:’’مولانا یوسفؒ (حضرت جی) صبح سے شام تک منبر پر تقریر کرتے رہتے اور اللہ پر اعتماد، موت کے ڈر سے فرار کی مذمت بہت ہی جوش سے بیان فرمایا کرتے تھے اور جب کسی ضرورت سے مولانا منبر سے اتر جاتے تو یہ مولوی صاحب منبر پر پہنچ جاتے اور مولانا مرحوم سے بھی زور دار انداز میں ان کے مضمون کو واضح کرتے اور پاکستان نہ جانے پر زور دیتے۔ مولانا کے آنے پر منبر سے اتر جاتے۔ ایک مرتبہ مولانا یوسفؒ صاحب ظہر کی نماز پڑھتے ہی کسی ضرورت سے گئے تو ان صاحب نے فوراً منبر پر جا کر نہایت شدت سے حسب معمول تقریر شروع کی، میں بھی مولوی یوسف مرحوم کے حجرے میں بیٹھا سن رہا تھا۔ وہ مولوی صاحب مولانا یوسفؒ کے آنے پر منبر سے اتر کر فوراً میرے حجرے میں آئے اور آتے ہی مجھ سے کہا کہ ’’آپ مجھے پاکستان جانے کی اجازت مرحمت فرما دیں‘‘۔میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ ابھی تو کتنے زور و شور کی تقریر کی اور اب پاکستان جانے کی اجازت مانگ رہے ہیں، میں نے حسب عادت کہہ دیا کہ ’’شوق سے چلے جائیں‘‘ کہنے لگے ’’میں حضرت جی (مولانا یوسفؒ ) کی زبان سے اجازت چاہتا ہوں، میں نے کہا ’’میری اجازت ہی ان کی اجازت ہے، شوق سے چلے جاؤ‘‘
انہوں نے بہت گھبرائی ہوئی صورت میں یوں کہا ’’حضرت! مجھے آج ہی جانا ہے اور حضرت جی کی زبان سے اجازت چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے مولانا یوسفؒ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور وہ ایک دم منبر سے اتر کر آئے۔ میں نے کہا ’’بھائی! یہ جانا چاہتے ہیں میں نے اپنی اور تمہاری طرف سے اجازت دے دی مگر یہ تمہاری زبان سے اجازت مانگتے ہیں‘‘
مرحوم نے بہت ہی غصہ سے کہا کہ ’’بھائی جی کی اجازت کے بعد میری اجازت کی کیا ضرورت ہے، شوق سے چلے جاؤ‘‘۔ مرحوم کے واپس جانے کے بعد میں نے ان سے کہا ’’اللہ حافظ‘‘ انہوں نے اسی وقت نظام الدین کے بہت سے خواص کو بڑے اہتمام سے جمع کر کے مسجد کے باہر نیم کے درخت کے نیچے لے جا کر بہت زور دار تقریر جتنی مسجد میں لوگوں کو روکنے کے لئے کر رہے تھے،اس سے زیادہ زور دار اب لوگوں کو جانے پر آمادہ کرنے کے لئے کی اور کہا کہ حضرت جی (مولانا یوسفؒ ) تو حضرت شیخ کی وجہ سے مجبور ہیں اور حضرت شیخ محض شہادت کے شوق میں یہاں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔