احسان دانش بتاتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو جنونِ وطن اور جوش ایمانی میں (پاکستان کی طرف ہجرت کر کے) نکل تو آئے لیکن یہاں ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ہوکر رہ گئی چونکہ معزز خاندان تھے، اس لئے افسروں کے دروازوں کی جھڑکیاں ان کی قوت برداشت سے باہر تھیں،
میں نے بچشم خود بیگمات کی شادیوں کے جوڑ اور کنواری لڑکیوں کے جہیز گلی کوچوں میں خاموشی میں اونے پونے بکتے دیکھتے ہیں اور کلیجہ پکڑ کر رہ گیا ہوں۔اس ہجومِ افلاس میں کسی قصبے کا ایک شخص جو گھر کا سامان بیچ کر افلاس سے ہار مان چکا تھا اپنی علمی قابلیت کے بھروسے پر مصائب کے جبڑوں میں دبا دبایا ریڈیوسٹیشن پہنچ گیا کہ شاید یہاں کوئی گنجائش نکل آئے، اسے کیا معلوم تھا کہ شرافت اور قابلیت دونوں اس ادارے میں کھوٹے سکے قرار پاتے ہیں، یہ انسان تو بھیڑوں کی طرح غول کی زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں ان کے یہاں رجسٹروں میں رحم و انصاف کے خانے نہیں، یہ شعور سے عاری، حب انسانی سے نابلد ہیں۔ مگر بھوک اور عزت نفس کا تحفظ انسان کو ایسے ایسے مقامات پر لے جاتا ہے جہاں کے چند لمحے بھی عقبٰے کے راستے کابوجھ بن جاتے ہیں اور اس غریب پر کچھ ایسا ہی وقت پڑا ہوا تھا۔ ریڈیو کے ماحول میں بھلا اس مصیبت زدہ کی ڈوبتی ہوئی نبضوں اور بے نور ہوتی ہوئی آنکھوں کو کون دیکھنے والا تھا، وہاں تو نغمہ و ساز اور کاکل و رخسار کا کاروبار تھا۔اس نے دفتر میں قدم رکھا ہی تھا کہ دو تین چہروں نے بلند آواز اور طنزیہ انداز میں کہا ’’باادب، باملاحظہ، ہوشیار!‘‘ وہ غریب یہ سمجھا کہ یہ حکم میرے لئے ہے چنانچہ اس نے نمازیوں کی طرح دونوں ہاتھ باندھ لئے اور بے گناہ مجرم کی طرح کھڑا ہو گیا۔
ایک ادھیڑ عمر کرسی نشین ’’کیا بات ہے بڑے میاں؟‘‘ اجنبی ’’میاں میں پڑھا لکھا انسان ہوں اور فاقوں پر نوبت ہے مجھے کوئی لکھنے پڑھنے کا کام مل جائے تو خدا اس کا اجر دے گا تمہیں‘‘ ایک چپڑاسی اشارہ پا کر ’’آپ ذرا باہر تشریف رکھیں‘‘ اتنے میں ادارے کے ایک مزاح نگار نے ایک کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں ،کھینچ کرکاغذ کو دیوار کی انگھیٹی کے خلاء میں ٹھونس دیا ایک سٹول انگھیٹی کے سامنے بچھوا کر کہا
’’بڑے میاں آئیے دیکھیے سٹول پر بیٹھ کر اس درمیانی خلاء کے قریب منہ کر کے کوئی غزل پڑھئے، ہم آپ کی آواز ٹیسٹ کر رہے ہیں، پھر پروگرام کے متعلق بات ہو جائے گی‘‘ اجنبی غریب سٹول پر انگھیٹی کے خلاء کے قریب منہ کر کے بیٹھ گیا اور ان میں سے ایک نے اسے ایک غزلوں کی کتاب تھما دی اور کہا ’’اس میں ،سے کوئی غزل پڑھئے‘‘ اجنبی نے پہلے صفحے سے ایک حمد پڑھی اور پورا عملہ ہنس ہنس کر دوہرا ہو گیا
جب مقطع آیا تو اس مزاح نگار نے انگھیٹی میں سے وہ کاغذ نکال کر غور سے دیکھا اور کہا ’’بڑے میاں! یہ لکیریں باقاعدہ ہونی چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہے ہمیں افسوس ہے نہ تو آپ جوان ہیں کہ آپ کو جوانوں کے پروگرام میں لے لیں اور نہ ابھی اس قدر بوڑھے ہیں کہ پوپلے منہ سے بوڑھوں کی صف میں آ جائیں، ہاں اگر دانت نہ ہوتے تو ہمارے یہاں اچھے پروگرام ملتے رہتے، ہمیں آج کل ایسے فنکاروں کی ضرورت ہے۔
اجنبی کے چہرے پر ایک سایہ سا کانپا اور وہ مایوسی میں پیشانی پر پسینہ اور چہرے پر آنسوؤں کی لہراتی ہوئی روشن لکیریں لئے ریڈیو سٹیشن سے باہر نکل آیا حالانکہ ایسے موقعوں پر شقاوتوں کے بڑے بڑے تودے پگھل کر بہہ جاتے ہیں لیکن اس ادارے کے اراکین میں سے کسی کا قہقہہ نہ مرجھایا، اجنبی کے سامنے بیوی بچوں کی نمناتی صورتیں اور ان کا انجام تھا چنانچہ اس نے گھر کی کوئی چیز فروخت کر کے اچھے خاصے دانت نکلوا دیئے اور کئی روز بعد پھر ریڈیو سٹیشن پہنچ گیا،
اور کہنے لگا ’’میں نے آپ کی مرضی کے مطابق اپنے دانت نکلوا دیئے ہیں اب تو آپ مجھے پروگرام دیں گے نا؟‘‘اراکین ریڈیو سناٹے میں آ گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، کئی نے مسکراہٹ روکی، کئی نے آنسو اور اسے ایک پندرہ روپے کا پروگرام دیا۔ وہ اس طرح گھر لوٹا جیسے کسی کے زخم پر پھاہا لگا دیا گیا ہو۔ نامعلوم بعد میں ریڈیو والوں نے کب تک اسے قابل توجہ گردانا ہو گا اور اس کے اس ایثار کی کیا قیمت لگائی ہو گی، میرے ذہن میں ریڈیو کے اراکین اور ان کے سیہ گوش حواریوں کے نجانے کتنے واقعات ہیں لیکن کیا فائدہ؟