احسان دانش کہتے ہیں کہ مجھے ایک دن میں کئی آدمیوں نے یہ واقعہ سنایا کہ دن کے ڈیڑھ دو بجے ہسپتال کے بغلی دروازے سے جو ہسپتال کی روڈ کی طرف کھلتا ہے ایک بڑے ڈیل ڈول کا مگر نہایت مغموم مسلمان ہسپتال سے نکل کر آ رہا تھا، اتنے میں اسی سڑک پر ایک سکھ کا گزر ہوا، اسے دیکھتے ہی مسلمان کی آنکھیں سرخ شعلوں سے بھر گئیں،
اس نے گلدار کی طرح جھپٹ کر اسے پکڑ لیا اور پھر اس کو پاؤں سے دبا کر بری طرح پیٹنا شروع کر دیا، لاہور کی سڑکیں جہاں ہر وقت آدمیوں کا سیلاب موجیں مارتا رہتا ہے، فوراً سینکڑوں آدمی جمع ہو گئے اور سکھ کوچھڑانے لگے لیکن اس سردار نے بڑے تلخ لہجے میں اپنے مددگاروں کو روک دیا اور بڑے روشن لہجے میں کہا ’’مجھے کوئی نہ چھڑائے‘‘ لوگوں نے مسلمان کو پکڑ لیا اور سردار سے سوال کیا ’’یہ کیوں؟‘‘ سردار کہا ’’میں نے اس کے خاندان کو قتل کیا ہے اور وہ بے گناہ تھے! میرا انہوں نے کوئی نقصان نہیں کیا تھا۔ مگر میں اس وقت لالہ کے اکسانے اور بھڑکانے میں آ گیا اور قتل و غارت پر کمر باندھ لی، لیکن گھر جا کے جو سوچا تو میرے ضمیر نے میری نیندیں چھین لیں، جب سوتا ہوں تو خواب میں وہی ماحول دکھائی دیتا ہے کہ لالہ دونی چند غارتگری کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ہم لوگ ان کے اشاروں پر بے گناہوں کا قتل عام کر رہے ہیں، پولیس اور فوج ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم جنگلوں اور اونچے نیچے ٹیلوں میں دبکتے پھرتے ہیں، فوراً آنکھ کھل جاتی ہے اور پھر صبح تک نیند نہیں آتی، آخر میں نے طے کر لیا تھا کہ جب رستے کھل جائیں گے تو لاہور جا کر خود کو ان میاں صاحب کے سپرد کر دوں گا جو سامنے کھڑے ہیں۔ میں صرف اسی لئے لاہور آیا تھا اور ان کے گھر جا رہا تھا کہ ان کے دروازے پر ان کے ہاتھ سے قتل ہو جاؤں تاکہ روح کو ندامت اور ضمیر کو ملامت سے نجات ملے،
اتفاق ہے کہ یہ رستے ہی میں مل گئے۔ آپ لوگ مجھ پر کرم کریں ، انہیں چھوڑ دیں اور مجھے نہ بچائیں، میں انہی کے ہاتھ سے مر کر سکون پا سکتا ہوں اور یونہی میری مکتی ہو سکتی ہے، یہ کہہ کر وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا اور اس شخص نے کہا ’’آؤ، اپنا کام کرو اور مجھے تکلیف سے چھڑا دو! میں خد اسے پہلے تمہارا گنہگار ہوں!‘‘۔یہ سن کر مسلمان کے سینے میں اپنے استلاف کی روح عود کر آئی،
اس نے سردار کو سینے سے لگا لیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا ’’میں نے اور میرے خدا نے تمہیں معاف کر دیا! میرے ساتھ گھر چلو! تم میرے مہمان ہو‘‘۔ چنانچہ دونوں بانہوں میں بانہیں ڈال کر موڑ مڑ گئے۔ میں حیران رہ گیا کہ آج بھی مسلمان امیرالمومنین حضرت علیؓ کی طرح کردار کی اسی بلندی پر ہیں اور قاتلوں کو معاف کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب اسلام کے ان بنیادی کرداروں کی برکت ہے جن پر اسلام کی تاریخ ناز کرتی ہے۔