بادشاہ بہادر شاہ ظفر خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ تھے، ان کی عمر کا آخری حصہ بڑا دردناک رہا، انگریزوں نے انہیں گرفتار کیا، ان کے سامنے ان کے عزیز قتل کئے گئے، انہیں قید و بند کی تاریکیوں اور صعوبتوں میں پھینک ڈالا، وہ اردو کے اچھے شاعر بھی تھے، انہوں نے قید و بند کے عرصہ میں بڑی دردناک غزلیں کہی ہیں، ان کے دکھ بھرے اشعار کا نمونہ ملاحظہ ہو، سنا ہے یہ اشعار ان کی لوح تربت پر بھی ثبت ہیں۔
میرا رنگ و روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا۔۔جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصلِ بہار ہوں۔میری فاتحہ کے لئے کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں۔۔کوئی آ کے شمع جلائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں۔ان کے داروغہ ماہی مراتب حضرت ظہیر دہلوی نے اپنی آپ بیتی ’’داستان غدر‘‘ کے نام سے لکھی ہے، اس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کے مشہور ہاتھی ’’مولا بخش‘‘ کا یہ حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ:’’مولا بخش ایک قدیم معمر ہاتھی تھا، اس نے کئی بادشاہوں کو سواری دی تھی، اس ہاتھی کی عادتیں بالکل انسان کی تھیں، قد و قامت میں ایسا بلند و بالا ہاتھی ہندوسستان کی سرزمین میں نہ تھا اور نہ اب ہے، یہ ہاتھی بیٹھا ہوا اور ہاتھیوں کے قد کے برابر ہوتا تھا۔ خوبصورتی میں اپنا جواب نہ رکھتا ھا، کسی آدمی کو سوائے ایک خدمتی کے پاس نہ آنے دیتا تھا، جس دن بادشاہ کی سواری ہوتی تھی اس سے ایک دن پیشتر شاہی چوبدار جا کر حکم سنا دیتا تھا کہ ’’میاں مولا بخش! کل تمہاری نوکری ہے، ہوش یار ہو جاؤ، نہا دھو کر تیار رہو‘‘ بس اسی وقت سے ہوش یار ہیں۔ جس وقت ہوادار سواری میں بادشاہ نقار خانے کے دروازے سے برآمد ہوتے، چیخ مار کر تین سلام کئے اور خود ہی بیٹھ گیا، جس وقت تک بادشاہ سوار نہ ہو لیں اور خواص نہ بیٹھ جائیں، کیا مجال کہ جنبش کر جائے، جب بادشاہ سوار ہو لئے اور فوج دار نے اشارہ کیا، فوراً کھڑا ہو گیا۔
مختصر یہ کہ جب سواری سے فرصت پائی، پھر ویسا ہی مست ہے جیسا تھا، یہ کمال اس ہاتھی کو حاصل تھا جب فیل خانہ شاہی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو مولا بخش نے دانہ پانی چھوڑ دیا۔ فیل بان نے جا کر سانڈرس صاحب کو اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ سانڈرس صاحب کو یقین نہ آیا، فیل بان کو گالیاں دیں اور کہا کہ ہم چل کر خود کھلائیں گے ، وہ پانچ روپے کے لڈو اور کچوریاں ہمراہ لے کر ہاتھی کے تھان پر پہنچے اور شیرینی کا ٹوکرا ہاتھی کے آگے رکھوا دیا،
ہاتھی نے جھلا کر ٹوکرے کو اس طرح کھینچ مارا کہ اگر کسی آدمی کے لگتا تو کام تمام ہو جاتا، ٹوکر دور جا گرا اور تمام شیرینی بکھر گئی، سانڈرس بولے، ’’ہاتھی باغی ہے، اسے نیلام کر دو‘‘۔ چنانچہ اسی روز صدر بازار میں لا کر کھڑا کیا اور نیلام کی بولی بولی، کوئی خریدار نہ ہوا۔ ایک پنساری نے ڈھائی سو روپے کی بولی دی اسی بولی صاحب نے نیلامی ختم کر دی۔فیل بان نے ہاتھی سے کہا کہ ’’لے بھائی! تمام عمر تو تُو نے بادشاہوں کی نوکری کی، اب تقدیر پھوٹ گئی کہ ہلدی کی گرہ بیچنے والے کے دروازے پر چلنا پڑا‘‘ یہ سنتے ہی ہاتھی کھڑے قد سے زمین پر گر پڑا اور جاں بحق ہو گیا۔