بادشاہ روم قیصر نے حضرت عمر فاروقؓ کی طرف ایک خط میں لکھا کہ میرے سر میں درد رہتا ہے، کوئی علاج بتائیں، حضرت عمرؓ نے اس کے پاس اپنی ٹوپی بھیجی کہ اسے سر پر رکھا کرو، سر کا درد جاتا رہے گا، چنانچہ قیصر جب وہ ٹوپی سر پر رکھتا تو درد ختم ہو جاتا، اتارتا تو درد دوبارہ لوٹ آتا، اسے بڑا تعجب ہوا،
تجسس سے ٹوپی چیری تو اس کے اندر ایک رقعہ پایا جس پر ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا تھا۔ یہ بات قیصر کے دل میں گھر کر گئی، کہنے لگا ’’دین اسلام کس قدر معزز ہے اس کی تو ایک آیت بھی باعث شفاء ہے، پورا دین باعث نجات کیوں نہ ہو گا، اور اسلام نے قبول کر لیا۔ ’’بسم اللہ‘‘ کی تاثیر کا ایک اور واقعہ امام رازیؒ نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گزر ایک قبر پر ہوا جس میں میت کو عذاب دیا جا رہا تھا وہ دوبارہ وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ قبر میں رحمت کے فرشتے ہیں عذاب کی تاریکی کی بجائے وہاں اب مغفرت کا نور ہے، آپ کو تعجب ہوا، اللہ تعالیٰ سے اس عقدہ کو حل کرنے کی دعا کی تو اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ’’یہ بندہ گنہگار تھا، جس کی وجہ سے مبتلائے عذاب تھا، مرتے وقت اس کی بیوی امید سے تھی، اس کا بچہ پیدا ہوا، وہ بچہ مکتب میں داخل کر دیا گیا، استاد نے اسے پہلے دن ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھائی، تب مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں زمین کے اندر اسے عذاب دیتا رہوں جبکہ اس کا بیٹا زمین کے اوپر میرا نام لیتا ہے‘‘۔