مشہور عباسی خلیفہ منصور ایک رات طواف کر رہاتھا کہ اچانک اس کے کان میں آواز پڑی ’’اے اللہ! میں تیری ہی بارگاہ میں ظلم و زیادتی کے عام ہونے، حق اور اہل حق کے درمیان حرص و طمع کے داخل ہونے کا شکوہ کرتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر خلیفہ منصور وہاں سے نکل کر مسجدکے ایک کونے میں آ کر بیٹھ گیا اور خادم کو حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس حاضر کرو،
اس شخص کو جب خلیفہ کا پیغام ملا تو اس نے دو رکعت نماز پڑھ کر استیلام رکن کیا اور خلیفہ کی خدمت میں حاضر کر سلام عرض کیا۔ خلیفہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ’’یہ ہم نے تمہیں کیا کہتے سنا کہ ’’زمین میں ظلم و زیادتی عام ہو گئی ہے اور حق اور اہل حق کے درمیان حرص و طمع داخل ہو گئی‘‘۔ بخدا تمہاری اس بات سے ہمیں بڑی تکلیف ہوئی‘‘ اس شخص نے کہا ’’اے امیر المومنین! اگر جان کی امان پاؤں تو حقیقت حال عرض کروں؟‘‘ خلیفہ نے کہا ’’ہم نے تمہیں امان دی‘‘ وہ شخص کہنے لگا۔ ’’اے امیر المومنین ! خود آپ ہی کی ذات حرص و طمع اور دنیوی لالچ کا شکار ہو گئی ہے، حرص و طمع کے اس مکروہ جذبے نے آپ کو ظلم و زیادتی کا سدباب کرنے سے روکے رکھا ہے۔ خلیفہ نے کہا ’’تیرا برا ہو، میرے اندر لالچ اور حرص کیونکر داخل ہو سکتی ہے جب کہ میں سیاہ وسفید کا مالک ہوں اور سونا و چاندی میری مٹھی میں ہے‘‘ اس شخص نے کہا ’’آپ جس طرح دنیوی اغراض و مفادات کا شکار ہوئے ہیں اس طرح کوئی دوسرانہیں ہو سکتا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کندھے پر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی ہے مگر آج اس کی انجام دہی سے غفلت برت رہے ہیں اور مال و دولت جمع کرنے میں مگن ہیں، آپ نے چونے اور پکی اینٹوں کی دیواریں کھڑی کر کے، مضبوط آہنی دروازے لگا کر، مسلح پہرے دار اور دربان بٹھا کر مظلوموں پر اپنے دربار تک رسائی کی تمام راہیں مسدود کر دی ہیں۔
لوگوں سے ٹیکسوں کی شکل میں مال و دولت سمیٹنے کے لئے اپنے اعمال کو کیل کانٹے سے لیس کر کے روانہ کر رکھا ہے، آپ کی رعایا میں سے صرف مخصوص طبقے کو ہی دربار شاہی میں شرف بازیابی کا پروانہ حاصل ہے، کمزوروں، غریبوں اور ستم رسیدہ لوگوں کے لئے آپ کے دروازے بند ہیں۔ یہ طبقہ اشرافیہ جسے آپ کا تقرب حاصل ہے اور جسے دربار میں بلا روک ٹوک رسائی حاصل ہے،
جب آپ کو مال و دولت تقسیم کرنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے دیکھتا ہے تو اسے وجہ جواز بنا کر خود اس بندربانٹ کے ارتکاب پر کمربستہ ہو جاتا ہے اور اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر لوگوں کے احوال کی صحیح خبر آپ تک پہنچنے نہ پائے۔ اگر اقتدار میں موجودکوئی نیک بندہ اس طبقے کی غلط روش کی مخالفت کرے تو اس پر الزام تراشیاں اور دشنام طرازیاں کر کے ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا،
اور جب وہ راہ سے ہٹ جاتا ہے تو لوگ اس طبقے کی ہیبت اور اثر و رسوخ سے مزید مرعوب ہو جاتے ہیں اور اس سے نباہ رکھنے کے لئے مال و دولت اور ہدایا کا سہارا لیتے ہیں، اس طرح اس طبقہ کے لوگ رعایا پر ظلم کرنے میں پہلے سے زیادہ مستعد ہو جاتے ہیں، یہی حال ان لوگوں کا ہے جو اثر و رسوخ اور جاہ و مرتبہ کے مالک ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ شہر، ظلم و زیادتی اور فساد کی آماجگاہ بن گئے ہیں، طبقہ اشرافیہ کے افراد عملاً آپ کی سلطنت میں شریک ہو گئے ہیں،
جب کہ آپ اس ساری صورتحال سے بے پرواہ ہیں، جب کوئی مظلوم ظلم کی شکایت لے کر آپ کے دربار میں آنا چاہتا ہے تو اس کی راہ روکی جاتی ہے اور اگر آپ کے باہر آنے پر اپنا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کرے تو آپ کا اتنا کہ دینا اسے مایوسی کے غار میں دھکیلنے کے لئے کافی ہے کہ ’’یہ وقت فریاد سننے کا نہیں‘‘۔ اسی طرح اگر آپ ظالموں کے احتساب کیلئے کوئی محتسب مقرر کریں اور مقربین کو خبر ہو جائے تو وہ اسے مجبور کرتے ہیں کہ ان کی شکایات آپ تک نہ پہنچائے،
وہ بیچارہ ان کے خوف سے زبان بند رکھتا ہے اور یوں مظلوم شخص شکوہ ظلم لئے اس کے یہاں چکر پہ چکر لگاتا ہے مگرکچھ شنوائی نہیں ہوتی، آخر کار جب ہر طرف سے تنگ آ کر وہ آپ کے نکلنے پر بے اختیار تڑپ کر فریاد کرتا ہے تو اسے اذیت ناک سزا دے کر دوسروں کے لئے نمونہ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہیں آتا، کیا یہی اسلام ہے؟ امیرالمومنین! میرا ملکِ چین آنا جانا رہتا تھا،
ایک مرتبہ میں وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کی قوت سماعت جواب دے گئی ہے اور وہ کانوں سے بہرہ ہو گیا ہے، اس دن بادشاہ نے بھری مجلس میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا، اہل مجلس اس مصیبت پر صبر کی تلقین کرنے لگے تو اس نے سر اٹھایا اور کہا ’’میرا رونا اس لئے نہیں کہ مجھ پر مصیبت پڑی ہے، میں تو اس مظلوم کے غم میں رو رہا ہوں جو ظالم کیخلاف فریاد لے کر میرے در پر دستک دے گا مگر میں سن نہ پاؤں گا‘‘۔
کچھ دیر ٹھہر کر کہنے لگا ’’خیر! اگر سماعت چلی گئی تو آنکھیں تو سلامت ہیں، جاؤ رعایا میں اعلان کرا دو کہ آج کے بعد ملک میں مظلوم فریادی کے سوا کوئی سرخ کپڑے نہ پہنے تاکہ مظلوم کے سرخ کپڑے دیکھ کر میں اس کی داد رسی کر سکوں‘‘ پھر وہ ہاتھی پر سوار ہو کر نکل کھڑا ہوتا اور مظلوموں کی داد رسی کرتا۔ امیرالمومنین! اس بادشاہ نے مشرک ہونے کے باوجود اپنی قوم کے ساتھ ہمدردی کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھا اور ایک آپ ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے اور رسول اللہﷺ کے اہل بیت کا فرد ہونے کے باوجود اپنی خواہش نفس کو مسلمان رعایا کی خیرخواہی پر قربان نہیں کر سکتے،
اگر تو آپ مال و دولت اپنے بیٹے کے لئے جمع کر رہے ہیں تو دنیا میں جو بچہ بھی آتا ہے اس کا کوئی مال و متاع نہیں ہوتا مگر خدائے بزرگ و برتر کا سایہ عاطفت مسلسل اس پر دراز ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ اس بچے کی عظمت کے گن گانے لگتے ہیں، آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے اور اللہ جس کو چاہے عطا فرماتا ہے اور اگر مال و دولت جمع کرنے سے آپ کا مقصد سلطنت کی مضبوطی اور استحکام ہے تو بنوامیہ کی مثال او رتاریخ آپ کے سامنے کہ ان کا جمع کردہ لاؤ ل
شکر اور مال و دولت ان کے کسی کام نہ آیا، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ جیسا معاملہ کرنا چاہئے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی مال و دولت کے انبار لگا کر آپ اپنے موجودہ رتبے سے بلند کوئی مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔اے امیر المومنین! کیا اپنی نافرمانی کرنے والے کو آپ قتل سے بڑھ کر کوئی سزا دے سکتے ہیں؟ خلیفہ نے کہا ’’نہیں‘‘ اس شخص نے کہا تو پھر آپ کا اس بادشاہ کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دنیا کی بادشاہت سے سرفراز فرمایا اور وہ اپنے نافرمان کو قتل نہیں بلکہ دائمی دردناک عذاب کی سزا دیتا ہے،
وہ بخوبی واقف ہے کہ کس چیز کی محبت میں آپ کا دل جکڑا ہوا ہے او روہ کیاچیز ہے جو آپ کا مطمع نظر قرار پائی ہے کہ اسی کے حصول کے لئے آپ کے ہاتھ بڑھتے اور قدم اٹھتے ہیں، دنیا کی جس بادشاہت پر آپ فریفتہ ہیں، کیا وہ اس وقت آپ کے کام آ سکے گی جب وہ قادر مطلق ذات اسے آپ سے چھین لے گی اور آپ کو حساب کیلئے لاکھڑا کرے گی۔ اس شخص کی باتیں سن کر خوف آخرت سے خلیفہ منصور کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی،
بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ’’کاش! میں پیدا ہی نہ ہوتا‘‘ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ’’اچھا اب تم ہی کوئی تدبیر بتاؤ کہ میں کیا کروں‘‘ وہ شخص کہنے لگا ’’اے امیرالمومنین! دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی طرف لوگ اپنے دینی معاملات میں رجوع کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آپ بھی ایسے ہی لوگوں کو اپنا مقرب بنائیے، وہ آپ کی درست رہنمائی کریں گے، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے، وہ آپ لغزش سے بچائیں گے‘‘
خلیفہ نے کہا، ’’میں نے اس کی کوشش کی تھی مگر وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں‘‘۔ اس شخص نے کہا ’’انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں آپ انہیں اپنی راہ پر چلنے کے لئے مجبور نہ کریں، آپ اپنے دروازے کھلے رکھیں، رکاوٹیں ہٹا دیں، مظلوم کے ساتھ انصاف اور ظلم کا خاتمہ کریں، غنیمت اور صدقات کا مال وصول کر کے ضرورت مند اور مستحقین میں عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کریں تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ وہ ہستیاں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر امت کی فلاح و بہبود کے لئے آپ کے ساتھ تعاون کریں گی۔ گفتگو جاری تھی کہ اس دوران مؤذن نے آ کر سلام کیا اور اذان دی، خلیفہ منصو رنماز پڑھ کر اپنی مجلس میں چلا آیا اور اس شخص کو بلانے کے لئے آدمی بھیجا تو تلاش کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔