عامر بن حطان خارجی تھا اور حجاج بن یوسف کے مخالفین میں سے تھا، حجاج نے اسے گرفتار کیا، جلاد سے کہا ’’بدکار عورت کے اس بیٹے کی گردن اڑا دو‘‘ عامر نے بڑے پروقار انداز میں سراٹھا کر کہا ’’حجاج! تمہارے بڑوں نے تمہاری بڑی غلط تربیت کی ہے، موت کے بعد رہ کیا جاتا ہے، میں جواباً اسی طرح کی گالی تمہیں دوں تو مجھے کیا خوف ہو سکتا ہے لیکن گالی دینا بہادروں اور شرفاء کے شایان شان نہیں‘‘۔ یہ گالی کا باعث نجات جواب تھا، حجاج نے اس کا یہ جملہ سن کر شرمندگی
سے سر جھکا لیا، پھر اس سے کہا ’’تمہارے ساتھ احسان کیا جا سکتا ہے؟‘‘ عامر نے کہا ’’کیوں نہیں‘‘ چنانچہ حجاج نے گھوڑا اور زاد راہ دے کر اسے اپنے علاقے کی طرف رخصت کیا، عامر وہاں پہنچا تو اس کے قبیلہ کے لوگوں نے کہا ’’آپ کو اللہ نے آزادی دی ہے، حجاج نے نہیں ،بھرپور تیاری کے ساتھ ہمیں دوبارہ حجاج پر حملہ کرنا چاہئے‘‘ لیکن عامر نے کہا ’’حجاج نے مجھ پر احسان کیا ہے اور اس احسان نے میرے ہاتھ باندھ لئے ہیں، اب میں اس کیخلاف لڑنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا‘‘۔