منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ(درندے کا جوٹھا پاک یا ناپاک؟)

datetime 16  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بُنان حمال چوتھی صدی ہجری کے بزرگوں میں سے ہیں، اصل بغداد کے تھے لیکن مصر میں رہنے لگے تھے، عوام و خواص دونوں میں ان کی بڑی مقبولیت تھی، اللہ والوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے، وہ دلوں کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں، حمال نے بادشاہِ مصر ابن طولون کو ایک مرتبہ نصیحت فرمائی، ابن طولون تاب نہ سخن نہ لا سکا اور ناراض ہو کر اس نے حکم دیا کہ انہیں خونخوار شیر کے سامنے ڈال دیا جائے،

انسان اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کے لئے سزا کے بھی عجیب طریقے ایجاد کرتاہے۔ سزا کا جو طریقہ جس قدر سخت ہو گا اس کے جذبہ انتقام کو اسی قدر ٹھنڈک پہنچے گی، بنان حمال کو خونخوار شیر کے سامنے ڈال دیا گیا، شیر لپکا پھر رک کر ان کے جسم کو سونگھنے لگا، دیکھنے والے ان کے جسم کے چیر پھاڑنے کا نظارہ کرنا چاہتے تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! جب دیکھا کہ شیر انہیں کچھ نہیں کہہ رہا، تب انہیں اس کے سامنے سے اٹھا دیا، اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوئی کہ جب ان سے پوچھا گیا ’’شیر کے سونگھتے وقت آپ کے دل پر کیا گزر رہی تھی؟‘‘ فرمانے لگے ’’میں اس وقت درندے کے جوٹھے کے متعلق علماء کے اختلاف کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس کا جوٹھا پاک ہے یا ناپاک‘‘۔
تقدیر کا قاضی (اللہ جس کو رہا کرنا چاہئے، میں اسے روک نہیں سکتا)
چوتھی صدی ہجری میں منصور نامی ایک شخص اندلس کا حکمران گزرا ہے، اس نے کسی جرم میں ایک آدمی کو گرفتار کر لیا، مجرم کی والدہ نے بیٹے کی رہائی کیلئے رحم کی اپیل کی جس سے منصور مزید بگڑ گیا اور قلم ہاتھ میں لے کر لکھنا چاہا ’’اسے پھانسی دی جائے‘‘ لیکن لکھا ’’اسے رہا کیاجائے‘‘۔ وزیر نے وہ رقعہ لے کر اس کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ منصور نے پوچھا! کیا لکھا؟

کہنے لگا ’’فلاں کی رہائی کے لئے لکھا‘‘ منصور بھڑک اٹھا ’’اسے پھانسی دی جائے، رہائی کا کس نے کہا ہے؟‘‘ وزیر موصوف نے اس کو پرچی تھما دی جس پر ’’اسے رہا کیا جائے‘‘ لکھا تھا، کہنے لگا، یہ غلطی سے لکھ دیا ہے، اس کو پھانسی دینی ہے اور سابقہ حکم مٹا کر لکھنا چاہا ’’اسے پھانسی دی جائے‘‘ لیکن لکھا ’’اسے رہا کیا جائے‘‘۔ وزیر نے حکم کے مطابق رہائی کا حکم دیا۔ منصور نے پوچھا! کیا لکھا؟

کہنے لگا ’’فلاں کی رہائی کیلئے لکھا‘‘۔ منصور آگ بگولہ ہوا ’’اسے پھانسی دینی ہے پھانسی، رہائی کا کس نے کہا ہے‘‘ وزیرنے پھر اسی کا لکھا ہوا رقعہ سامنے کیا جس میں رہائی کیلئے لکھا ہوا تھا، کہنے لگا، یہ غلطی ہو گئی ہے لیکن تیسری بار بھی اسی طرح ہوا، منصور کے قلم سے پھانسی کی بجائے اس کے لئے آزادی کا پروانہ جاری ہوا، جب تین بار اس طرح ہوا تو تقدیر کے قاضی کے سامنے منصور کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑا، کہنے لگا ’’اسے میرے نہ چاہنے کے باوجود رہا کر دیا جائے، اللہ جس کو رہا کرنا چاہئے، میں اسے روک نہیں سکتا ہوں‘‘۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…