منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

کیپٹن رابرٹ فالکن سکاٹ،اس کی کہانی دنیا کی سب کہانیوں سے زیادہ بہادرانہ اور المناک ہے

datetime 16  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میں نے قطب جنوبی پر پہنچنے والے دوسرے انسان، کیپٹن رابرٹ فالکن سکاٹ کی داستان حیات سے زیادہ بہادرانہ، روح گداز اور الم ناک کہانی آج تک نہیں سنی۔یہ کہانی کہ سکاٹ اور اس کے دو ساتھی کس طرح برفانی تودے پر المناک موت کا شکار ہوئے، آج بھی بنی نوع انسان کے دلوں کو تڑپا دیتی ہے۔ سکاٹ کے موت کی خبر فروری 1913ء کی ایک دوپہر کو انگلستان پہنچی۔ اہل انگلستان یہ خبر سن کردم بخود رہ گئے۔

ٹرافالگار پر نیلسن کی موت کے بعد کسی خبر نے اتنا اثر نہیں کیا تھا۔بیس برس بعد انگلستان نے آخری یادگار سکاٹ کے نام سے منسوب کر دی۔ یہ ایک پولر عجائب گھر تھا۔ دنیا میں اپنی قسم کا واحد پولر عجائب گھر، عمارت کے سامنے والے حصے پر رابرٹ سکاٹ کا یہ فقرہ کنندہ ہے۔ وہ قطب جنوبی کا رازجاننے گیاتھا لیکن اس نے خدا کا بھید پا لیا۔ سکاٹ نے قطب جنوبی کے المناک سفر کا آغاز ’’ٹیرانووا‘‘ میں کیا تھا اور اس وقت سے جب اس بحری جہاز نے ’’سرکل‘‘ کے برفانی پانی میں چلنا شروع کیا تھا۔ وہ پریشان تھا اور اس کی قسمت کا ستارہ گردش میں تھا۔بحری جہاز طوفانی لہروں کی زد میں آ گیا۔ عرشے پر پڑا ہوا سارا سامان سمندر میں گر گیا۔ بائلر کی آگ پانی سے سرد ہو گئی اور کئی روز تک یہ عظیم الشان جہاز انتہائی کسمپرسی کی حالت میں غضب ناک سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتا رہا۔لیکن ابھی سکاٹ کی بدقسمتی کا آغاز ہی ہوا تھا۔وہ اپنے ساتھ مضبوط خچر بھی لایا تھا۔ جنہیں سائیبریا کے برفانی علاقے میں چلنے کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن یہ خچریں مصیبتوں کا شکار ہو گئیں۔ وہ روئی کے گالوں کی طرح اڑتی ہوئی برف میں ٹھوکریں کھاتی رہیں۔ یہاں تک کہ کھائیوں میں گرکر ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور مجبوراً انہیں گولی کا نشانہ بنانا پڑا۔نیکن کے شکاری کتوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ وہ حواس باختہ ہو گئے اور برفانی تودوں سے ٹکریں مارنے لگے۔

اس کے بعد سکاٹ اور اس کے چار ساتھیوں نے قطب جنوبی کی طرف آخری سفر کا آغاز کیا۔ وہ ایک ایسے تودے پر چڑھنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ جس کا وزن 1000 پونڈ تھا۔ روز بروز وہ کھردری برف پر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک زبردستی اپنے آپ کو آگے کھینچ رہا تھا وہ بری طرح ہانپ رہے تھے اور سطح سمندر سے نو ہزار فٹ کی بلندی پر کثیف ہوا میں بے دم ہوئے جا رہے تھے۔

اس کے باوجود وہ پریشان نہیں ہوئے تھے۔ خوف ناک سفر کے اختتام پر جو آج تک کسی شخص نے نہیں کیاتھا، کامیابی ان کا راستہ دیکھ رہی تھی، وہ پراسرار قطب ان کا منتظر تھا۔ جس پر روز ازل سے آج تک کسی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ جہاں کوئی جان دار نہیں رہتاتھا۔چوتھے روز وہ قطب جنوبی پہنچ گئے۔۔۔لیکن۔۔۔ وہاں صرف مصائب نے ان کا خیرمقدم کیا۔ ان کے روبرو ایک چھڑی کے سرے پر کپڑے کا پھٹا پرانا ٹکڑا خوف ناک آندھی میں فتح کا نشان بن کر لہرا رہا تھا۔

ایک پرچم ناروے کے امنڈسن کا پرچم ان کے سامنے لہرا رہا تھا۔ اس پرچم کو دیکھ کر انہیں یہ احساس ہوا کہ کئی برسوں کی تیاری اور منصوبہ بندی اور کئی مہینوں کی مصیبتوں کے بعد وہ جس منزل مقصود تک پہنچے ہیں، صرف پانچ ہفتے پیشتر ایک دوسرا شخص وہاں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ چکا ہے۔مایوسی کے بوجھ تلے دب کر وہ اپنے وطن واپس روانہ ہوئے۔ اس خطرناک اور خوف ناک علاقے سے مہذب دنیا کی طرف ان کی واپسی کی کہانی انتہائی الم ناک ہے۔

برفانی ہواؤں نے ان کے حلیے بگاڑ دیے اور ان کی داڑھیوں تک میں برف کی تہیں جم گئیں۔ وہ ٹھوکریں کھا کر گرے اور ہر نئی ضرب انہیں موت کے قریب لاتی گئی۔ سب سے پہلے ان میں سب سے زیادہ طاقتور شخص ایونز کا پاؤں پھسلا اور وہ برف کے تودے سے ٹکرا کر مر گیا۔اس کے بعد کیپٹن لوٹس بیمار پڑ گیا۔ اس کے پیروں کو برف نے ناکارہ بنا دیا۔ اور اس سے جلد چلا نہ جاتا تھا اور اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے۔

چنانچہ ایک رات اوٹس نے ایثار کی ایک ایسی مثال پیش کی جو دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آئی۔ وہ اوروں کی زندگی بچانے کے لیے موت سے ہم آغوش ہو گیا۔ اس نے کسی چیخ و پکار کے بغیر بڑے پرسکون لہجے میں ’’میں باہر جا رہا ہوں‘‘ اور وہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ اس کی نعش تک کا پتا نہ چل سکا لیکن آج اس جگہ جہاں سے غائب ہوا تھا ایک یادگار کھڑی ہے، جس پر لکھا تھا۔ یہیں کہیں ایک بہادر شخص موت سے ہم آغوش ہوا۔

سکاٹ اور اس کے دو ساتھی ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ اب وہ شکل و صورت سے انسان بھی نظر نہ آتے تھے۔ ان کے ناک، انگلیاں اور پاؤں برف سے اتنے نرم ہو گئے تھے کہ ہاتھ لگانے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جسم سے الگ ہو جائیں گے۔ 19 فروری 1912ء کو انہوں نے آخری بار خیمہ نصب کیا۔ ان کے پاس صرف اتنا ایندھن تھا کہ جس سے چائے کی دو پیالیاں تیار ہو سکیں۔ کھانا بھی اتنا ہی تھا کہ جس سے وہ بمشکل دو روز زندہ رہ سکیں۔

ان کا خیال تھا کہ ان کی جانیں بچ گئی ہیں کیونکہ اس جگہ سے ایک سپلائی ڈپو صرف گیارہ میل کے فاصلے پر تھا، ایک دلیرانہ پیش قدمی سے وہ وہاں پہنچ سکتے تھے۔ یکایک ایک ناگہانی المیہ نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اچانک اتنا شدید طوفان آیا کہ جس کی تندی نے برف کے مضبوط تودوں میں بھی شگاف ڈال دیے۔ دنیا کا کوئی جان دار اس میں سلامت نہ رہ سکتا تھا۔ سکاٹ اور اس کے ساتھی گیارہ روز کے لیے اس خیمے میں مقید ہو گئے۔ ان کا راشن ختم ہو گیا تھا۔

انجام قریب آ گیا تھا اور انہیں اس کا علم تھا۔اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا۔۔۔ ایک آسان راستہ۔۔۔ ان کے پاس افیون کی کافی مقدار تھی، جو اس قسم کی ہنگامی حالات کے لیے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس کی بڑی سی خوراک کھانے کے بعد وہ اپنے وجود کو خوشگوار خوابوں میں گم کر سکتے تھے۔ ایسی نیند جس سے وہ کبھی بیدار نہ ہوں۔لیکن انہوں نے افیون نہ کھائی، انہوں نے تہیہ کر لیا کہ انگلستان قدیم کی روایتی قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کا بہادری سے مقابلہ کریں گے۔

اپنی زندگی کے آخری وقت میں سکاٹ نے سر، جیمز بیری کو خط لکھا۔ جس میں ان المناک لمحوں کی تفصیل لکھی۔ ان کا راشن ختم ہو چکا تھا اور موت ان کے سر پر کھڑی تھی لیکن اس کے باوجود سکاٹ اپنے خط میں لکھتا ہے کہ ہم نے اپنے خیمے کو خوشی کے جن گیتوں سے آباد کر رکھا ہے، اگر تم انہیں سن سکتے تو تمہیں یقیناً مسرت ہو گی۔‘‘ پھر آٹھ ماہ بعد ایک روز جب سورج کی کرنیں برف پر پھیلی ہوئی تھیں،

انہیں تلاش کرنے والی جماعت کو ان کی نعشیں دکھائی دیں۔ انہیں اس جگہ دفن کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے جان دی تھی۔ انہیں ایک قبر میں دفن کر دیاگیا اور اس مشترکہ قبر پر ٹینی سن کے یہ اشعار لکھ دیے۔جرأت مند دلوں کو وقت کے چرکوں نے کمزور بنانے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ عزم ختم نہ ہو سکا کہ جستجو اور تلاش جاری رکھی جائے اور ہمت نہ ہاری جائے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…