مارک ٹیون نے ایک بار کہا تھا ’’انیسویں صدی کی دو سب سے دل چسپ شخصیات نپولین اور ہیلن کیلر ہیں۔‘‘ مارک ٹیون نے یہ بات اس وقت کہی تھی، جب ہیلن کیلر کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی۔ آج بھی وہ بیسویں صدی کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ہیلن کیلر بالکل نابینا ہے۔ اس کے باوجود اس نے اتنی کتابیں پڑھی ہیں کہ جتنی بہت سی آنکھوں والے بھی نہیں پڑھ سکتے۔ ایک عام شخص جتنی کتابیں پڑھ سکتا ہے۔
اس نے اس سے سوگنا کتابیں تو ضرور پڑھی ہوں گی۔ پھر وہ سات کتابوں کی مصنف بھی ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں ایک فلم بھی بنائی تھی اور اس میں کام بھی خود ہی کیا تھا۔ وہ بالکل بہری ہے لیکن ان لوگوں سے زیادہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جن کے کان اچھے بھلے ہوں۔اپنی زندگی کے نوبرس وہ قوت گویائی سے محروم رہی۔ اس کے باوجود اس نے یونین کی ہر ریاست میں تقریریں کی ہیں۔ وہ پورے یورپ کاچکر لگا چکی ہے۔ہیلن کیلر پیدا ہوتے وقت بالکل نارمل تھی۔ اپنی زندگی کے پہلے ڈیڑھ برس میں وہ دوسرے بچوں کی طرح دیکھ اور سن سکتی تھی اور اس نے تھوڑا تھوڑا بولنا بھی شروع کر دیا تھا پھر یکایک وہ ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئی۔ ایک بیماری نے اسے اس بری طرح پچھاڑا کہ انیس مہینے کی عمر میں اندھی، بہری اور گونگی بنا دیا اور عمر بھر کا روگ لگا دیا۔تندرست ہونے کے بعد وہ جنگلی جانوروں جیسی حرکتیں کرنے لگی، جو چیز اسے ناگوار گزرتی، اسے توڑ دیتی۔ دونوں ہاتھوں سے کھانا اپنے منہ میں ٹھونس لیتی اور اگر کوئی اسے ٹوکتا تو وہ زمین پر لیٹ کر زور زور سے لاتیں مارتی اور چیخنے کی کوشش کرتی۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں اس کے والدین نے اسے بوسٹن میں اندھوں کے انسٹی ٹیوٹ میں بھیج دیا۔ پھر اس کی تاریک زندگی میں این، مینسفیلڈ سلی ون روشنی کی دیوی کی طرح داخل ہوئی۔
مس سلی ون بوسٹن میں پرکن انسٹی ٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہونے کے وقت صرف بیس سال کی تھی۔ اس نے ایک ایسا کام شروع کیا جو بالکل ناممکن نظر آتا تھا۔ یعنی گونگے، بہرے اور اندھے بچے کو تعلیم دینے کا کام۔ اس کی زندگی زندگی انتہائی غربت کی وجہ سے بے حد المناک تھی۔این، سلی ون کو دس برس کی عمر میں چھوٹے بھائی کے ساتھ ٹیوکس بری میسی چیوسٹس کے یتیم خانے میں بھیج دیا گیا۔
اس جگہ لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ یہ دونوں بچے اس جگہ سوتے تھے ’’جو مردہ خانہ کہلاتا تھا۔‘‘ وہ کمرہ جہاں نعشوں کو دفن کرنے سے پہلے رکھا جاتا ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی اس قدر خوف زدہ ہوا کہ چھ مہینے بعد اس دنیاسے چل بسا۔خود این ابھی چودہ برس کی تھی کہ اس کی بینائی اس قدر خراب ہو گئی کہ اسے پرکن انسٹی ٹیوٹ بھیجاگیا تاکہ وہ انگلیوں کے لمس سے پڑھنا سیکھ سکے۔ لیکن وہ اندھی نہ ہوئی۔
کم از کم اس وقت نہیں۔ اس کی بینائی پہلے سے بہتر ہو گئی۔ اس واقعہ کے کوئی پچاس برس بعد اور اپنی موت سے کچھ روز پہلے وہ بینائی سے مکمل طور پر محروم ہو گئی۔میں مختصر الفاظ میں یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ این، سلی ون نے ہیلن کیلر پر کون سا جادو کیا اور کس طرح ایک ماہ کے مختصر عرصے میں وہ ایک ایسے بچے کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ جو مکمل تاریکی اور خاموشی کی دنیا میں گم تھا۔
ہیلن کیلر کی اپنی کتاب میری داستان حیات میں، یہ واقعات تفصیل کے ساتھ قلم بند ہیں کوئی ایسا شخص جس نے یہ کتاب پڑھی ہو۔ اس خوشی کا اندازہ لگا سکتا ہے جو اس اندھے، بہرے اور گونگے بچے کو اس وقت ہوئی تھی جب اس پر یہ بھید کھلا تھا کہ انسانی تقدیر جیسی بھی کوئی چیز ہے۔ اس روز شاید دنیا میں کوئی بچہ مجھ سے زیادہ مسرور نہ تھا۔ وہ لکھتی ہے جب وہ سنہری دن ڈھلے اپنے بستر پر لیٹی تو ان خوشیوں کا تصور کر رہی تھی،
جو وہ دن میرے لیے لایا تھا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اگلے دن کا شدت سے انتظار تھا۔ بیس برس کی عمرمیں ہیلن کیلر نے اتنا کچھ سیکھ لیا تھا کہ اس نے ریڈ کلف کالج میں داخلہ لے لیا اور اس کی استانی بھی اس کے ہمراہ وہاں گئی۔ اس وقت تک اس نے کالج کے کسی دوسرے طالب علم کی طرح نہ صرف لکھنا پڑھنا سیکھ لیاتھا بلکہ اس کی قوت گویائی بھی بحال ہو گئی تھی۔ اس نے زندگی میں جو پہلا جملہ سیکھا تھا ’’میں اب گونگی نہیں ہوں۔‘‘
اور اسے باربار دہراتی تو اس حقیقت کے اظہار سے اس کا دل مارے خوشی کے بلیوں اچھلنے لگتا کہ ’’میں ابھی گونگی نہیں ہوں۔‘‘ آج اس کا لب و لہجہ اس شخص جیسا ہے۔ جوغیرملکی زبان بول رہا ہو وہ اپنی کتابیں اور مضمون ایک ٹائپ رائٹر سے لکھتی ہے اور اگر وہ حاشیے پر کوئی غلطی لگانا چاہے تو بالوں کی سوئی سے کاغذ پر چھوٹے چھوٹے سوراخ کر دیتی ہے۔ وہ نیو یارک شہر کے ایک علاقے فارسٹ ہلز میں رہتی ہے۔
میں اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر رہتا ہوں اور جب میں سیر کے لیے گھر سے نکلتا ہوں تو بعض اوقات اسے اپنے کتے کے ساتھ گھر کے باغیچے میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ میں اکثر دیکھتاہوں کہ وہ ٹہلتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی ہے لیکن وہ میری اور آپ کی طرح ہونٹوں کو جنبش نہیں دیتی۔ وہ انگلیوں کو حرکت دیتی ہے اور اپنے آپ سے اشاروں کی زبان میں باتیں کرتی ہے۔
اس کی سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ مس ہیلن کیلر میں سمت اور رخ کا اندازہ لگانے کی حس ہم میں سے کسی سے بہتر نہیں ہے وہ اکثر اوقات اپنے گھرہی میں راستہ بھول جاتی ہے اور اگر میزیں کرسیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں تو اسے سخت مشکل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اس میں لمس کی حس اتنی شدید ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ہونٹوں پر آہستہ سے انگلی رکھ کر یہ جان سکتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
اسی طرح وہ پیانو اور وائلن کے دستے پر انگلیاں رکھ کر موسیقی کے زیرو بم سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ مشین کے ارتعاش کو محسوس کرکے وائرلیس کا پیغام بھی سمجھ سکتی ہے۔ مغنی کے گلے پر انگلیاں رکھ کر وہ گانے سے محظوظ ہوتی ہے۔ لیکن بذات خود وہ گا نہیں سکتی۔اگر ہیلن کیلر آج آپ سے ہاتھ ملائے اور پھر پانچ برس بعد آپ سے ملے اور مصافحہ کرے تو اس مصافحے سے وہ یہ جان سکتی ہے کہ آپ غمگین ہیں، مسرور ہیں یا خوش یا پھر مایوس ہیں۔
وہ کشتی کھیلتی ہے، تیرتی ہے اور اسے جنگل میں گھڑ سواری سے محبت ہے۔ وہ ایک خاص سیٹ سے شطرنج کھیلتی ہے اور برسات کے دنوں میں وہ سویٹر وغیرہ بھی بنتی ہے۔ہم میں سے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اندھا پن سب سے بڑی لعنت ہے لیکن ہیلن کیلر کا کہنا ہے کہ اسے اندھا ہونے کا اتنا رنج نہیں جتنا بہری ہونے کا قلق ہے۔ اس تاریکی اور خاموشی میں جودنیا اور اس کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہے وہ جس چیز کے لیے سب سے زیادہ ترستی ہے، وہ انسانی آواز کا ہمدردانہ لب و لہجہ ہے۔