منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

میو برادران،ایک گمنام قصبے کے دو لڑکے جو دنیا کے عظیم ترین سرجن بن گئے

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آج سے کوئی پچاس برس پہلے منی سوتا کا ایک شہر زبردست طوفان کی زد میں نہ آتا تو شاید طب کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز دریافت نہ ہوتی۔ طوفان کی زد میں آنے والے شہرکا نام روچسٹر تھا۔ جسے آج دنیا دو مشہور سرجنوں میوبرادران کے وطن کے نام سے جانتی ہے۔ وہ حیرت انگیز دریافت جس پر ڈاکٹر سی، ایچ میو آج بھی کام کر رہے ہیں، پاگل پن کے علاج کی دوا ہے۔

یہ دوا انجکشن کی شکل میں کمزور ذہن یا پاگل شخص کے جسم میں داخل کرنے سے اس کے خون کی گردش ٹھیک ہو جاتی ہے اور مریض تندرست ہو جاتا ہے۔ اس دریافت سے بنی نوع انسان کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟ اس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل حقائق سے لگا سکتے ہیں۔امریکی ہسپتال میں دوسری تمام بیماریوں کے مقابلے میں ذہنی امراض کے مریض سب سے زیادہ ہیں۔ آج جو طلباء مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے ہرسولہ طلباء میں سے ایک کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ذہنی امراض کے شفا خانے میں داخل ہونا پڑے گا۔اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ آپ کو ذہنی امراض میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کے سات سال ایسے شفا خانے میں بسر کرنا پڑیں۔ گزشتہ برسوں میں ذہنی امراض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ اگر اگلی صدی میں بھی یہ امراض اسی تیزی سے بڑھتے رہے تو آدھی آبادی پاگل خانوں میں زیر علاج ہو گی اور باقی آدھے لوگ پاگل خانوں سے باہر ان کے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھا رہے ہوں گے۔ وہ دونوں بھائی ایک مقامی کیمسٹ کی دکان پر کام کرتے تھے۔ اور نسخے تیار کرنے اوردوا کی پڑیاں باندھنے کی تربیت لیتے تھے یہیں سے وہ میڈیکل کالج میں داخل ہو گئے۔پھر ایک المناک حادثہ ہوا۔

ایسا حادثہ جس نے علم ادویات کی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا۔حادثہ یہ تھا کہ اس علاقے میں زبردست طوفان آیا۔ اتنا شدید کہ جس سے جانی اور مالی نقصان ہوا۔۔۔ خاص طور پر روچسٹر کی تو اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ اس جگہ ہزاروں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ کئی روز تک میو برادران اپنے والد کے سات ملبوں سے نعشیں نکالتے رہے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے رہے۔

سینٹ فرانسسز کے نرسوں کے ادارے کی سربراہ سسٹر ایلفریڈ ان کے اس جذبے سے بے حد متاثر ہوئی اور اس نے پیش کش کی کہ اگر میو برادران انتظام سنبھالنے پر راضی ہوں تو انہیں ملازمت مل سکتی ہے۔ وہ رضا مند ہو گئے اور جب 1889ء میں میو کلینک کھولا گیا تو اس وقت بڑے ڈاکٹر میو کی عمر 77 برس تھی۔ اور اس کے دونوں بیٹے عین اپنے والد کا مخالف رخ تھے۔

میو برادران جو اس حیرت انگیز دوا کی تیاری میں مصروف ہیں۔ دنیا کے کامیاب ترین سرجنوں میں سے ہیں۔ لندن، پیرس، روم، کیپ ٹاؤن اور ٹوکیو سے ڈاکٹر رچسٹر پہنچتے ہیں اور ان کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہر سال ساٹھ ہزار مریض، جن میں سے اکثر کی حالت انتہائی نازک ہوتی ہے۔ اتنی امنگیں اور امیدیں لیے میو کلینک جاتے ہیں، جیسے کسی مقدس مقامات کی زیارت کو جا رہے ہوں۔

لیکن میں آپ کو پھر یاد دلاتا ہوں کہ اگر آج سے باون برس پہلے وسطی مغرب میں ہولناک طوفان نہ آتا تو شاید دنیا نہ میو برادران کے ناموں سے اور نہ ہی روچسٹر سے آشنا ہوتی اور نہ ہی ذہنی امراض کے علاج کے لیے حیرت انگیز دوا دریافت ہوتی۔جب امریکہ کے مقامی باشندوں یعنی ریڈانڈین کے ساتھ لڑائیاں شروع ہوئیں تو ڈاکٹر میو چھپا رہا۔ جب جنگ کا غبار چھٹ گیا تو وہ میدان جنگ میں پہنچا اور مردوں کو دفن کرنے لگا اور زخمیوں کا علاج کرنے لگا،

کم و بیش پچاس میل کے علاقے میں اس کے مریض پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اتنے غریب تھے کہ کسی ڈاکٹر کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن ڈاکٹر میو بعض اوقات ساری ساری رات کی مسافت طے کرکے ان کے پاس پہنچتا اور انہیں دوا دیتا۔ اکثر اوقات اسے شدید دھند اور برف باری میں بھی کئی کئی میل پیدل چلنا پڑتا۔ڈاکٹر میو کے دو بیٹے تھے۔ ولیم اور چارلس، اب یہ دونوں دنیا میں میو برادران کے نام سے مشہور ہیں۔

آج ان میں سے بڑابھائی ولیم میو ’’کینسر یا رسولی کے علاج کا سب سے بڑا ماہر مانا جاتا ہے۔‘‘ بڑا بھائی، چھوٹے بھائی کو اور چھوٹا بھائی بڑے بھائی کو اپنے سے زیادہ قابل سمجھتا ہے اور دنیا کی نظروں میں سرجری یا علم جراحی میں دونوں یکتائے روزگار ہیں۔ وہ اتنی خود اعتمادی اور مستعدی سے کام کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑے سرجن حیران رہ جاتے ہیں۔ صبح سات بجے ہسپتال پہنچنے کے بعد وہ برادرز مسلسل چار گھنٹے آپریشن کرتے ہیں۔

کئی برسوں سے ان کے روزانہ آپریشنوں کی اوسط پندرہ سے تیس کے درمیان ہے لیکن اس کے باوجود مطالعہ جاری رکھتے ہیں اپنے کام میں زیادہ سے زیادہ مہارت پیدا کرنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ دونوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اب روچسٹر کا پورا شہر میو کلینک کے دم سے آباد ہے۔ ہنگامے اور شور شرابے کی روک تھام کے لیے اب اس شہر میں ٹرامیں بھی نہیں چلتیں۔ حتیٰ کہ لوگ گلی کوچوں میں بھی اونچی آواز سے بات نہیں کرتے۔

ہسپتال میں کسی کے ساتھ کوئی ناجائز رعایت نہیں برتی جاتی۔ ویٹنگ روم میں غریبوں، کسانوں اور فلمی اداکاروں سبھی کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان سب کے ساتھ یکساں سلوک کیاجاتا ہے۔ امراء سے ان کی حیثیت کے مطابق فیس لی جاتی ہے لیکن ایک ہسپتال سے کسی کو آج تک نہیں نکالا گیا کہ اس کے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے۔میو برادران اپنا ایک انتہائی وقت کسی حادثے کے بغیر غریبوں کے علاج معالجے میں صرف کرتے ہیں۔

بلوں کی ادائیگی نہ ہونے پر انہوں نے کبھی کسی کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیااورکبھی کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیے کہ وہ ان کا خرچہ ادا کرنے کے لیے اپنا مکان گروی رکھے۔ موقع پر نقدی کی صورت میں ایک آدمی جو کچھ بھی دے سکے وہ چپکے سے قبول کر لیتے ہیں، بات یہیں ختم ہو جاتی ہے اور بقایا جات کی کوئی مد نہیں کھولی جاتی۔ آپریشن کرنے سے پہلے وہ کسی مریض سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اس کی مالی استعداد کیاہے؟

فیس کی ادائیگی ہر شخص کی اپنی خوشنودی پر ہے۔ایک شخص اتنا بیمار تھا کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس نے ہسپتال کے اخراجات اپنے کھیت گروی رکھ دیے۔ جب میو برادران کو اس بات کا پتاچلا تو انہوں نے اس شخص کا بھیجا ہوا چیک واپس کر دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی طرف سے بھی اسے ایک چیک بھیجا کہ وہ ان مالی نقصانات کی تلافی کر سکے۔ جو بیماری کے دوران اسے برداشت کرنا پڑے۔

یہ ایک چھوٹے سے قصبے کے دو اسے نوجوانوں کی داستان حیات ہے۔ جنہیں دولت مند بننے کا قطعی کوئی لالچ نہیں لیکن اس کے باوجود دولت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ انہوں نے کبھی شہرت کی پرواہ نہیں کی۔ اس کے باوجود امریکہ کے مشہور ترین سرجنوں میں سے ہے۔ان کی زندگی کا اصل مشن یہی ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کی جائے۔ ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ایک کتبہ آویزاں ہے۔ جس کی عمارت ان کی کامیابی کے راز کی عکاسی کرتی ہے۔ کتبے پر لکھا ہے ’’کوئی ایسی خوبی پیدا کیجئے۔‘‘ جو لوگوں کی بھلائی کے کام آ سکے۔ اس طرح آپ چاہے لق و دق صحرا میں ہی کیوں نہ مسکن بنا لیں۔ لوگ خود بخود آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…