منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

کلاڈولیم ڈوکن فیلڈرز، وہ دھوبی کی دھلی ہوئی چادروں پر سونا زندگی کا سب سے بڑا تعیش خیال کرتاتھا

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہالی ووڈ کے فلمی اداکاروں میں ایک ایسا بھی تھا۔ جس کا بڑا اور بے ہنگم سا سرخ ناک اس کے چہرے پر بے حد مصنوعی معلوم ہوتاتھا۔ اس بھاری بھر کم شخص کا نام کلاڈولیم ڈوکن فیلڈرز تھا۔ ایک کامیاب اور عظیم ایکٹر بننے سے پہلے وہ فلم ڈائریکٹروں کے پیچھے پیچھے مارا مارا پھرتاتھا۔ وہ کئی کئی گھنٹے ڈائریکٹروں کے انتظار میں بیٹھا رہتا۔

وہ گزشتہ بیس برسوں سے فلموں میں کام کر رہا تھا لیکن اس سارے عرصہ میں اس کی حالت اس قدر پتلی رہی کہ وہ صرف اس بات پر کسی فلم کی کہانی لکھنے اور اس میں کام کرنے اور اسے ڈائریکٹ کرنے کے لیے تیار تھا کہ اسے کسی قسم کے معاوضے کی بجائے فقط ایک فلم بنانے کا موقع دیاجائے۔ وہ اپنی یہ خواہش لیے فلم سازوں کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا۔ لیکن ہر جگہ سے اسے نفی میں جواب ملا۔ لیکن جب ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ نامی فلم مکمل ہوئی تو اسے دس دن کے کام کا معاوضہ دس ہزار پونڈ ملا۔ ایک دن کے ایک ہزار پونڈ۔ یعنی ایک منٹ کا معاوضہ دو پونڈ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اسے ہالی ووڈ میں ایک دن کی اداکاری کا معاوضہ امریکہ کے صدر کی ایک دن کی تنخواہ سے پچیس گنا زیادہ ملتاتھا۔ ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ فلم میں اس نے مسٹر مکابر کاکردار انجام دیاتھا۔ ہالی ووڈ میں اس کے سوا اور کوئی اداکار یہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا۔ اپنے نام کو پردہ سیمیں پر دیکھنا دنیا کے اس عظیم شعبدہ باز کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی لیکن دوسری طرف گندے اور تنگ و تاریک کمروں میں زندگی گزارنا بھی اس کے لیے کوئی بات نہ تھی۔ اس کی زندگی میں ایک وقت ایسابھی آیا کہ وہ پورے چار برس تک بستر پر نہ سویا۔ وہ عوامی پارکوں میں بنچوں پر اکثر اوقات زمین میں بڑے بڑے سوراخوں میں سوتا اور سردی سے بچنے کے لیے پتوں کا ڈھیر اپنے اوپر بچھا لیتا تھا۔

دھوبی کی دھلی ہوئی چادروں پر سونا اس کے لیے زندگی کا سب سے بڑا تعیش تھا۔ اور یہ تعیش وہ ایک دن حاصل کرکے رہا۔ جہاں تک شعبدہ بازی کا تعلق ہے۔ دنیامیں ڈبلیو، سی، فیلڈز کے مقابلے کا کوئی شعبدہ باز نہیں۔ وہ چودہ برس کی عمر میں اس فن کی مشق کرنے لگاتھا۔ وہ تقریباً ہر روز مشق کرتا، اور دن میں سولہ سولہ گھنٹے حتیٰ کہ بیماری کے عالم میں بھی جب اس میں کھڑا ہونے کی سکت نہ ہوتی تو وہ پھر بھی مشق کرتا رہتا۔

شعبدہ بازی کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ ایک شعبدہ باز کو ہر اسی چیز کا شعبدہ دکھاناچاہیے۔ جسے وہ اٹھا سکتاہو۔ وہ انڈوں، تھالیوں، جوتوں، اینٹوں اور سگریٹوں اوردوسری اس قسم کی اشیاء سے حیرت ناک کرتب اور کھیل دکھاتا۔ اس نے دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اپنے شعبدے دکھائے۔ جنگ بوائر کے دوران میں وہ جنوبی افریقہ گیا اور وہاں عوام کو اپنے کھیلوں سے حیران کرتا رہا۔ ہندوستان، مصر، فرانس، آسٹریلیا، برطانیہ اور جرمنی کے عوام بھی اس کے شعبدہ بازی کے کمال دیکھ چکے تھے۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ فیلڈ انگلینڈ کا رہنے والاتھا لیکن یہ غلط ہے وہ پنسلوینیا میں پیدا ہوا مگر اس نے اپنا زیادہ وقت فلاڈیفیا میں گزارا۔ ڈبلیو سی فیلڈ نے اس وقت سے دنیا کے گرد چکر کاٹنا شروع کیا۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا۔ اپنے والد سے ایک غلط فہمی کی بناء پر وہ گھرسے بھاگ گیا۔ یہ واقعہ سناتے وقت اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ جاتی تھی۔ ان کے مکان کے صحن میں ایک کدال پڑی تھی۔ بس اسی کدال پر باپ بیٹے کا جھگڑا ہو گیا۔ اچانک ایک دن اس کے والد کا پاؤں کدال پر پڑ گیا۔

وہ اس طرح اچھلی کہ اس کا ٹخنہ زخمی کر گئی۔ اس بات پر اسے غصہ آ گیا۔ یہ کدال ڈوکن فیلڈز نے وہاں رکھی تھی۔ باپ نے غصے میں آ کر وہی کدال پکڑ کر اس کا دستہ بیٹے کے شانے پر دے مارا۔اس چوٹ نے ننھے ڈوکن فیلڈز کی زندگی کا نقشہ بدل دیا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی ہتک کی گئی ہے وہ چپکے سے اندر گیااور ایک بڑا سا صندوق پکڑ کر کرسی پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس کا باپ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے صندوق اس کے سر پر دے مارا۔

اس کے بعد وہ گھر سے یوں بھاگا کہ واپس نہ آیا۔ دوسری دفعہ جب باپ اور بیٹے میں ملاقات ہوئی تو ننھا کلاڈو ڈوکن فیلڈز، ڈبلیو، سی فیلڈز بن چکاتھا۔ دنیا کا عظیم شعبدہ باز۔گھر چھوڑنے سے سولہ برس کی عمرتک وہ ایک آوارہ کتے کی طرح وہ بے گھر پھرتا رہا۔ اسے سونے کے لیے جہاں کوئی کونہ کھدرا مل جاتا، وہیں سو رہتا۔ کھانے کے لیے جو ملتا، کھا لیتا۔ اس نے صبح کے وقت امیر گھروں کے سامنے سے دودھ کی اس قدر بوتلیں اٹھائیں کہ بعد میں نگران کتوں کو دیکھ کر اسے کپکپی چھڑ جاتی۔

اس سے باتیں کرتے وقت آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے، جسے ڈکنز کے ناول سے کوئی کردار زندہ ہو گیا ہے۔ ایک زمانے میں اس نے سمندر میں ڈوبنا اپنا پیشہ بنالیاتھا۔ وہ پانی میں اتر جاتا اور پھر ڈوب گیا، ڈوب گیا کا شور مچا کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتا۔ اسے بچانے کا منظر دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا ہو جاتا۔ اتنے میں چھابڑی والے اشیائے خوردنی لے کر وہاں پہنچ جاتے اور لوگ وقت گزارنے کے لیے ان سے چیزیں خرید لیتے بعد میں وہ چھابڑی والوں سے اپنا کمیشن لے لیتا۔

بعض اوقات وہ دن میں چار پانچ مرتبہ ڈوبتا۔ سپاہیوں نے اسے اتنی دفعہ پکڑ کر قید کیاتھا کہ اسے اعداد و شمار بھی یاد نہ رہے تھے۔ ایک زمانے میں وہ برف کے ایک کارخانے میں کام کیا کرتاتھا مگر وہاں بھی وہ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے شعبدہ بازی کی مشق کیا کرتاتھا۔ دو برسکی مشق کے بعد اسے پتاچلا کہ ایک تھیٹر میں ایک شعبدہ باز کی ضرورت ہے۔

وہ ایک پونڈ ہفتہ پر وہاں ملازم ہوگیا۔ لیکن تھیٹر کا لالچی منیجر اس میں سے بھی چھ شلنگ اپنا کمیشن رکھ لیتاتھا۔ لہٰذا پیسہ بچانے کے لیے وہ گھٹیا کھانا کھاتا اور تھیٹر کے ڈریسنگ روم میں سو جاتاتھا۔ پھر تین ماہ تک اسے وہاں کوئی کام نہ ملا۔ تھیٹر کی خستہ خالی سے تنگ آ کر اس نے وہاں کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ تھیٹر کے منیجر نے اس کی بہت سی رقم مار لی تھی۔ لیکن زندگی مسلسل سختیوں میں گزارنے کے بعد اب اسے اس قسم کی تکلیفوں کا بالکل احساس نہ رہا تھا۔

ڈبلیو، سی فیلڈز نے ہالی ووڈ میں اپنا ایک شان دار سا مکان بنوایاتھا۔ اس کے پرائیویٹ ڈریسنگ روم میں پچاس ہیٹ چھت سے لٹکتے رہتے تھے۔ اس کے شعبدے دیکھنے کے لیے لوگ تھیٹر میں بڑی بے قراری سے اس کا انتظار کرتے۔ وہ شعبدے جن میں ماہر ہونے کے لیے اس نے چالیس برس صرف کیے تھے لیکن اب اتنا ضرور ہوا کہ وہ ہر رات دھوبی کی دھلی ہوئی چادروں پر سوتا تھا وہ اکثر کہا کرتاتھا کہ ’’بستر پر دراز ہوتے وقت اور صبح اٹھتے وقت صاف ستھری چادریں دیکھ کر میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…