منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

ووڈ روولسن، وہ دوست بنانے کا خواہش مند تھا مگر اس نے ہزاروں دشمن بنالیے

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ووڈروولسن حقیقت میں کس قسم کا انسان تھا؟ اسے اعلیٰ درجے کا ذہین انسان کہا جاتا ہے لیکن اسے ناکام ترین شخص بھی گردانا جاتا ہے۔ اسے عالمی امن کی ایک تدبیر سوجھی تھی۔۔۔ لیگ آف نیشن۔۔۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے اس نے اپنی تمام تر قوتیں صرف کر دیں۔ آخر وہ مر گیا۔ ایک تباہ حال انسان جسے اس کے اپنے نظریے نے موت کی نیند سلا دیا۔

جب 1919ء میں ووڈر وولسن یورپ کے لیے روانہ ہوا تو اسے انسانیت کا نجات دہندہ کہا جاتا تھا۔ لہو سے لت پت یورپ نے ایک دیوتا کی طرح اس کا استقبال کیا۔ بھوکے کسان اس کی تصویر کے آگے شمعیں جلا کر اس طرح اس کی عبادت کرتے جیسے وہ کوئی مقدس ہستی ہو۔ ساری دنیا اس کے قدموں میں پڑی تھی لیکن جب تین ماہ بعد خستگی ودرماندگی کی حالت میں وہ امریکہ واپس آیا تو اس کے بہت سے دوست اس سے بدگمان ہو چکے تھے اوراس نے اپنے لیے ہزاروں دشمن بنا لیے تھے۔ تاریخ ووڈر وولسن کو ایک صحیح اسکول ماسٹر کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ سرد مہر، بارعب اور انسانی جذبات سے محروم ایک سکول ماسٹر، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ولسن ایک صحیح انسان تھے۔ انسانی تعلقات کا بھوکا۔ یہ اس کی زندگی کا المیہ تھا کہ اس کے اپنے شرمیلے پن نے اسے دوسروں سے الگ تھلگ رکھا۔ لیکن بعض اوقات وہ غیرمتوقع طور پر کھل جاتا۔ مثلاً ایک دفعہ یونیورسٹی کے دنوں میں وہ کھیل کے میدان میں فٹ بال کے کھلاڑیوں کو بڑے جوش و خروش سے داد دیتا رہا۔ جب وہ برمودا میں تھا تو ایک دفعہ کشتی کی سیر کے دوران وہ حبشی ملاحوں سے دیر تک گپیں ہانکتا رہا۔۔۔ میرے خیال میں ووڈروولسن امریکہ کے تمام صدروں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھاتھا۔ اس کے باوجود اس نے گیارہسال کی عمر تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔

وہ تفریح طبع کے لیے اکثر جاسوسی کہانیوں کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتا تھا۔ یہ اعلیٰ دماغ والا پروفیسر جس نے اپنی زیادہ تر زندگی عالمانہ ماحول میں بسر کی۔ اکثر بلا تکلف کہا کرتا تھا کہ وہ شکسپیئر کا کوئی ڈرامہ دیکھنے کی بجائے موسیقی کا کوئی شو دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہے، وہ کہا کرتا کہ وہ تھیٹر نکتہ چینی کے لیے نہیں بلکہ تفریح کے لیے جاتاتھا۔ جب وہ امریکہ کا صدر تھا تو اکثر ورائٹی شو دیکھنے جایا کرتاتھا۔

اس نے اپنی بیش تر زندگی مفلسی میں گزاری۔ ایک استاد کی حیثیت سے اس کی تنخواہ اس قدر کم تھی کہ گھر چلانے کے لیے اس کی بیوی کو تصریویں بنا کر فروخت کرنا پڑتی تھیں۔ ایک نوجوان پروفیسر کی حیثیت سے ووڈروولسن کوکبھی اتنی توفیق نہ ہوئی تھی کہ اچھے کپڑے خرید سکے۔ بعد کی زندگی میں اس نے لنکن کی طرح کبھی اپنے لباس کی پرواہ نہ کی تھی،

مثلاً ایک دفعہ جب وہ صدر تھا تو اس کے سیکرٹری نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ وہ اپنے کوٹ کی استر کی تبدیلی کے لیے اسے درزی کو دے دے لیکن ووڈروولسن نے جواب دیا۔ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں، ابھی ایک سال نکل سکتا ہے۔‘‘ لنکن کی طرح ووڈروولسن اپنی خوراک سے بھی بے اعتنائی برتتا تھا۔ اس کے آگے جو کچھ رکھ دیاجاتا تھا، کھا لیتا، لیکن بعض دفعہ بے دھیانی میں اسے یہ بھی معلوم نہ ہوتاتھا کہ وہ کیاکھارہا ہے؟

اس نے اپنی زندگی میں فقط ایک بار سگار پیا اور اسے بھی ختم ہونے سے پہلے بیزاری کے عالم میں پھینک دیا۔ خوب صورت کتابوں سے اس کی طبیعت کبھی نہ بھرتی تھی۔ وہ ہمیشہ اچھی اچھی کتابیں خریدتا تھا۔ اس کے ظاہری سرد مہر اور اکھڑ ڈھانچے کے نیچے آتشیں جذبات کاایک لاوا ابلتا رہتاتھا۔ جن لوگوں نے اسے قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روز ویلٹ سے زیادہ گرم مزاج تھا۔ اپنی پہلی بیوی سے اسے بے حد محبت تھی۔

صدر بننے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی بیوی کو ایک خوب صورت گرم کوٹ خرید کر دیا۔ ایک برس بعد جب وہ فوت ہو گئی تو اس نے 72 گھنٹے تک اس کی نعش اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دی۔ وہ نعش کو تین دن اور تین راتیں صوفے پرڈالے اس کے قریب بیٹھا رہا۔ اسے ایک علمی دیو کہاجاتاتھا۔ لیکن اسے زبان پر بہت کم عبور تھا۔ اور وہ دنیا کے بہت سے عظیم ادب سے ناواقف تھا۔ سائنس سے اسے مطلق دل چسپی نہ تھی اور فلسفہ تو اسے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔

اس نے اپنی زندگی کا آغاز ایک وکیل کی حیثیت سے کیاتھا لیکن اس پیشے میں اسے سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وکالت کے سارے عرصے میں اس کے پاس فقط ایک مقدمہ آیا اور وہ بھی اس کی والدہ کی جائیداد کے متعلق تھا۔میرے خیال میں ولسن کے کردار میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اسے کامیاب ہونے کے مختلف گر نہ آتے تھے۔ بچپن ہی سے اس کی زبردست خواہش تھی کہ وہ سیاست دان بنے۔ وہ کئی کئی گھنٹے اپنے کمرے میں تقریر کرنے کی مشق کیا کرتا تھا۔

اس فن پر عبورحاصل کرنے کے لیے وہ عجیب و غریب حرکتیں کیا کرتاتھا۔ مثلاً اس نے چہرے کے اتار چڑھاؤ کے سلسلے میں اپنے کمرے کی ایک دیوار سے مختلف قسم کے چارٹ آویزاں کر رکھے تھے لیکن وہ ایک اہم چیز کو ہمیشہ نظرانداز کر دیتاتھا۔ اسے لوگوں سے برتاؤ کا طریقہ کبھی نہ آیا۔ زندگی کے آخری برسوں میں اس نے اپنے بہت سے احباب سے تعلقات خراب کر لیے تھے۔ وہ سینٹ کے لیڈروں سے جھگڑ پڑا۔ اس نے اپنے بہترین دوست کولونل ہاؤس سے بھی تعلقات منقطع کر لیے۔

آخر جب اس نے ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے عوام سے کہا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف ہو گئی۔ جب سینٹ نے لیگ آف نیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو ولسن نے بلا واسطہ عوام سے اپیل کی۔ اس کی صحت ہمیشہ سے خراب تھی۔ اس کے ڈاکٹروں نے اسے زیادہ کام نہ کرنے کی تنبیہ کی تھی لیکن اس نے ان کا مشورہ نظرانداز کر دیا۔

صدر کی حیثیت سے اس کا آخری سال بڑی غیر حالت میں گزرا۔ اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ اپنے ہاتھ سے دستخط کر سکے۔ کوئی شخص اس کا ہاتھ پکڑتا تو وہ دستخط کر دیتا۔ جب وہ صدارت سے ریٹائر ہواتو امریکہ کے ہر گوشے سے ہزاروں لوگ ایس، سٹریٹ واشنگٹن میں اس کے گھر یوں آتے جیسے وہ کوئی زیارت گاہ ہو۔ جب وہ بسترمرگ پر پڑا تھا تو ہزاروں لوگ سربہ زانو اس کی روح کے لیے دعا گو تھے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…