اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سود اسلام میں حرام ہے اور سود لیناکا مطلب اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ کرنا قرار دیا گیا ہے ۔کیا موبائل کمپنیوں سے ایڈوانس لینا جائز ہے ؟ کیا یہ سود تو نہیں ؟ فتویٰ آگیا میرا رجحان یہ ہے کہ یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا ہے ،جس کے دو بنیادی سبب ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اضافی رقم کمپنی کے
سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس ہوتا ہے جو وہ ایزی لوڈ اور کارڈ لوڈ پر بھی کاٹ لیتے ہیں۔آج کل اگر 100 روپے کا کارڈ لوڈ کریں تو 75 روپے آتے ہیں،اب کیا ہم یہاں بھی یہ کہیں گے کہ کمپنی نے 75 دے کر ہم سے 100 روپے لئے ہیں۔یہاں ایسا کوئی بھی نہیں کہتا ہے،ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ حکومتی ٹیکس اور سروس چارجز ہیں جو ہر کارڈ کے ساتھ ساتھ ہر کال پر بھی کٹتے رہتے ہیں اور یہ ایسے اصول ہیں جو سم لیتے وقت ہی کمپنی آپ کو بتا دیتی ہے کہ ہم ان ان شرائط پر آپ کو اپنی کمپنی کی سروس مہیا کریں گے،اور ہم کمپنی کی ان شرائط کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم کمپنی کی تمام شرائط سے متفق ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے کمپنی سے نقد رقم نہیں لی ہوتی بلکہ ایک سروس اور خدمت لی ہوتی ہے ،جس کے چارجز ہم خدمت کے حصول کے بعد ادا کرتے ہیں۔(جبکہ کارڈ یا ایزی لوڈ میں پہلے ہی ادا کر دیتے ہیں۔)اب اس کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے۔سود تو یہ ہے کہ نقدی رقم کے بدلے میں ہم زیادہ رقم ادا کر یں