علامہ اقبالؒ کے خادم میاں علی بخش کو علامہ کے ہاں ایسا نا قابل فراموش واقعہ پیش آیا جسے وہ عمر بھر یاد کرتے رہے اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد عبد الستار نیازی اس واقعے کے اصل راوی تھے۔گوجرانوالہ کے ایک بزرگ علی بخش کے پاس آئے اور کہا کہ انھیں علامہ اقبال کی زندگی کے کچھ واقعات بتائیں۔ علی بخش نے جوب دیا’’ میں ساری باتیں کہہ چکا ہوں ،
اب کو ئی بات باقی نہیں رہی۔جب اس بزرگ نے اصرار کیا تو علی بخش نے کہا ’’ہاں‘‘ ایک واقعہ ایسا ہے جو پیش آیا مگر علامہ اقبال نے اسکی تفصیلات مجھے نہیں بتائیں ایک روز وہ یعنی علامہ صاحب میری فداکارانہ خدمت سے مسرور تھے۔ اور مجھے کہا ، علی بخش بتاؤ تمہیں کیا دوں کہ تم خوش ہو جاؤ ؟ میں نے جواب دیا کہ جو معاملہ آپ کو ایک دن پیش آیا تھا اور میں نے اسکے بارے میں نے آپ سے سوال کیا ، تو آپ نے بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بتائیں۔ علامہ نے فرمایا اب بتانا چاہتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ میرے( حین حیات )عمر بھرکسی کو نہ بتانا ، البتہ میری زندگی کے بعد بتا سکتے ہو۔ وہ واقعہ یوں ہے۔ایک روز نصف شب علامہ اقبال بستر پر لیٹے ہوئے تھے بے حد بے چین اور مضطرب تھے۔ دائیں بائیں کروٹ بدلتے تھے۔ یکایک آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور کوٹھی (میکلوڈ روڈ ) کے دروازے کی طرف گئے۔ میں بھی پیچھے چلا گیا۔ اتنے میں ایک پاکیزہ بزرگ اندر داخل ہوئے۔ ان کا لباس خوبصورت اور سفید تھا۔ انھیں آپ اندر لے آئے اور پلنگ پر بٹھا دیا اور خود نیچے بیٹھ کر بزرگ کے پاؤں دبانے لگے۔
اس دوران علامہ صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیا لاؤں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ دہی کی لسی بنا کر پلا دو۔ اس پر علامہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جگ لیکر جاؤ اور لسی بنوا کر لے آؤ۔میں حیران تھا کہ اس وقت لسی کہاں سے حاصل کروں۔ بھاٹی گیٹ جا کر کسی مسلمان کی دکان سے بنوا کر لاؤں یا اسٹیشن جاؤں۔ جونہی میں کوٹھی سے باہر نکلا تو کوٹھی کے سامنے ایک بازار دکھائی دیا۔جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
بازار میں مجھے ایک لسی والے کی دکان نظر آئی۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے کہا مجھے جگ میں لسی بنا کر دے دو۔ اس نے جگ مجھ سے لیکر اچھی طرح دھویا۔ پھر ایک دہی کی صحنک (کونڈا) اٹھا کر اپنے گڈوے میں لسی بنائی۔اور جگ میں بھر دی ، میں نے پیسے پوچھے تو سفید ریش بزرگ نے جواب دیا کہ علامہ صاحب سے ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔تم لے جاؤ اور ان کو پیش کر دو۔ میں جگ لیکر آیا اور حضرت علامہ کو پیش کر دیا۔
حضرت نے ایک گلاس بھر کر ان سفید ریش روحانی بزرگ کو پیش کیا۔ انہوں نے پی لیا۔ پھر دوسرا گلاس بھر کر دیا وہ بھی انہوں نے پی لیا جب تیسرا گلاس بھرا تو بزرگ نے کہا خود پی۔ کافی دیر تک علامہ اقبال ان بزرگ کے پاؤں دباتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کوٹھی سے باہر نکےر کے لئے چل دئیے۔ علامہ صاحب بھی انکے ساتھ نکلے۔میں بھی انکے پیچھے چلا۔ وہ بزرگ کوٹھی سے باہر نکلے تو
اچانک غائب ہو گئے میں حیران تھا کہ یہ کون تھے ؟ اب کہاں چلے گئے اور پھر وہ سامنے بازار بھی نہ تھا ، جس کے ایک دکاندار نے مجھے لسی بنا کر دی تھی۔ اس دن میں نے پوچھا حضرت یہ بزرگ کون تھے اور دکان پر بیٹھے ریش دار بزرگ کون تھے ؟ علامہ اقبال نے فرمایا کہ میں انکے نام بتاتا ہوں لیکن میری زندگی میں کسی کو نہ بتانا جو بزرگ کوٹھی میں تشریف لائے اور لسی پی وہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ تھے اور جس بزرگ نے لسی بنا کر دی وہ داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ تھے۔