کتب سیرت اقبال میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کو جب شمس العلما ء کا لقب دیا جا رہا تھا تو علامہ اقبال نے وہ لقب لینے سے انکار کر دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ میرے استاد میر حسن کو بھی شمس العلما کا لقب دیا جائے اور وہ مجھ سے پہلے اس کے حق دار ہیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال پر واضح کیا گیا کہ میرحسن نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتاہو۔
اس پر علامہ اقبال نے کہا تو پھر مجھے شمس العلماکا خطاب کیو ں دیا جا رہا ہے۔ جس پر جواب دیا گیا کہ آپ اپنی شاعری کے حوالے سے نمایا ں مقام رکھتے ہیں۔ جس پر آپ حقدار ہیں کہ آپکی تعلیمات کا اعتراف کیا جائے آپ نے جو تصنیف کیا ہے وہ انوکھا ہے۔ میرحسن کی کوئی بھی ایسی تصنیف نہیں ہے۔جس پر ان کو اس لقب سے نوازا جائے تو اس پر علامہ اقبال نے کہا مولوی میر حسن کی سب سے بڑی تصنیف میں خود ہوں میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی تعلیمات کی وجہ سے ہوں۔ اس بنا پر ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں شمس العلما ء کا لقب دیا جائے۔ آخر کار ڈاکٹر علامہ اقبال کے اصرار پر ان کے استاد محترم کو اس لقب سے نوازدیا گیا۔ اور خود علامہ نے اپنی ذات کے لئے اس لقب کو قبول نہ کیا۔
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ روم( اٹلی) میں میرا ٹریفک چالان ہو گیا‘ مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہ کرپایا۔ ایک ہفتہ بعد مجھے کورٹ بلایا گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ہفتے کے اندر چالان ادا کیوں نہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ میں ایک استاد ہوں‘ آج کل اسکول میں پرچے ہورہے ہیں‘ اس مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔ ابھی میں آگے بول ہی رہا تھا کہ جج صاحب اپنی سیٹ سے اٹھ کر بولے
Chair should be brought for the teacher as a teacher is come to the court
یہ کہنا تھا کہ کورٹ میں موجود تمام افراد کھڑے ہوگنے اور جج صاحب نے مجھ سے معذرت طلب کی۔اور فورا
ایک کرسی کا انتظام کیا گیا۔ اور کٹہرے میں ہی مجھے کرسی پر بیٹھایا گیا۔
جج نے کہا ، اے معزز استاد ! اے دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد ! اے محترم ترین انسان ! اے محترمِ انسانیت ! آپ نے ہی ہم کو عدالت کا ، اور عدل کا حکم دیا ہے ، اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم پڑھایا ہے ، اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔ عدالت نے جو ضابطہ قائم کیا ہے ، اس کے تحت آپ کو چیک کریں ، باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات پر شرمندگی ہے ، اور ہم بے حدافسردہ ہیں کہ ہم ایک استاد کو ، جس سے محترم ، اور کوئی نہیں ہوتا ، اپنی عدالت میں ٹرائل کر رہے ہیں۔ اور یہ کسی بھی جج کے لیے انتہائی تکلیف دہ موقع ہے کہ کورٹ میں ، کٹہرے میں ایک استادِ مکرم ہو اور اس سے ٹرائل کیا جائے۔اب میں شرمندہ اپنی جگہ پر ، یا اللہ یہ کیا شروع ہو رہا ہے۔ میں نے کہا حضور جو بھی آپ کا قانون ہے ، علم یا جیسے کیسے بھی آپ کا ضابطہ ہے ، اس کے مطابق کریں ، میں حاضر ہوں۔ تو انہوں نے کہاِ ہم نہایت شرمندگی کے ساتھ ، اور نہایت دکھ کے ساتھ ، اور گہرے الم کے ساتھ آپ کو جرمانہ کرتے ہیں۔جرمانہ ڈیڑھ روپیہ ہو گا۔اب جب میں اٹھ کے اس کرسی میں سے ، اس کٹہرے سے نکل کر شرمندہ ، باہر نکلنے کی کوششیں کر رہا تھا ، وہ جو جج تھا ، اس کا عملہ تھا ، اس کے منشی تھے ، وہ سارے جناب میرے پیچھے پیچھے۔
کہنے لگے چونکہ آپ ایک ٹیچر ہیں۔ تو ہم احترامِ کے ساتھ آپ کو رخصت کرتے ہیں۔بس میں اسی دن سمجھ گیا یہ لوگ ہم سے کیوں اتنا آگے نکل چکے ہیں۔