سید ابواعلیٰ مودودی کی صاحبزادی اپنے والد کا ایک واقعہ اپنی کتاب ’’شجر ہائے سایہ دار‘‘میں لکھتی ہیں کہ ابا جان! اچھرہ کی مسجد میں بچوں کو بھی جمعہ پڑھنے ساتھ لے جاتے تھے۔ مسجد کے خطیب ایک مولانا صاحب تھے جو ابا کے بہت مخالف تھے۔ ایک جمعہ میں ابا سامنے ہی بیٹھے تھے کہ مولانا صاحب بولے’’مسلمانو! یاد رکھو، اگر کوئی مودودیہ مر جائے اور اس کو دفنا دیا جائے اور اس کی قبر پر پودا نکل آئے اور
اس پودے کو کوئی بکری کھا لے تو یاد رکھو اس بکری کا دودھ پینا بھی حرام‘‘۔۔۔۔ اس کے باوجود ابا جی نے انہی خطیب صاحب کے پیچھے نماز پڑھی اور پڑھتے رہے۔۔۔۔ شام کو جماعت کے کارکنان نے ابا سے پوچھا’’یہ لوگ جو آپ کو برا بھلا کہتے ہیں ان کے پیچھے ہم نماز کیونکر پڑھیں‘‘؟ ابا جی نے کہا’’انہی کے پیچھے نماز پڑھیں، کیونکہ جتنا قرآن و سنت سے میں واقف ہوں وہاں کہیں نہیں لکھا کہ جو مودودی کو گالیاں دے اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، دوسرا میرے بارے میں وضاحتیں دے کر اپنا وقت ضائع مت کیا کریں‘‘۔