قائداعظم کابینہ کے ا جلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ وقت مقررہ پر بہت سے ارکان نہیں پہنچے تھے۔ قائداعظم نے گھڑی میں وقت دیکھا اور حکم دیا کہ ہال میں سے تمام خالی کرسیاں نکال دی جائیں اور اجلاس کا آغاز کردیا جائے۔ حکم پر عمل ہوا۔ بعد میں دیر سے آنے والے تمام اصحاب اور وزرا نے کھڑے ہوکر اجلاس میں شرکت کی۔
مشرقی پاکستان کے حالات بہتر نہ تھے۔ قائد اعظم نے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ گورنر جنرل کا سرکاری جہاز ڈیکوٹا نہایت چھوٹا سا تھا اور کیونکہ قائد اعظم بیمار تھے اور اس میں آرام دہ سفر ممکن نہ تھا۔ طبیعت کی ناسازی کے پیش نظر یہ تجویز کیا گیا کہ گورنر جنرل کے دورے کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی سے ایک جہاز کرائے پر لے لیا جائے جس پر صرف پانچ ہزار پونڈ (آٹھ یا دس ہزار روپے) خرچ ہوں گے۔ قائداعظم کو جب اطلاع ملی تو آپ نے اس فائل پر یہ ریمارکس لکھ کر واپس بھیج دی:”غریب ملک کا خزانہ اتنے خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں چھوٹے جہاز میں ہی جائوں گا۔“کابینہ کا اجلاس جاری تھا، قائداعظم سے پوچھا گیا کہ جناب چائے کا وقفہ کب کیا جائے؟قائداعظم نے جواب دیا ”کیوں، کیا یہ لوگ گھر سے چائے پی کر نہیں آئے؟ملک کا خزانہ ملک کے لیے ہے، لوگوں کے چائے کھانے کے لیے نہیں ہے۔“قائداعظم کے لیے قریبی بیکری سے روزانہ ایک بڑی ڈبل روٹی آیا کرتی تھی۔ ایک دن محترمہ فاطمہ جناح نے بیکری کے مالک کو فون کرکے کہا کہ آپ جو ڈبل روٹی بھیجتے ہیں، وہ بڑی والی ہے، اس میں سے ایک چوتھائی ہم استعمال کرتے ہیں۔ باقی بچ جاتی ہے اور ضائع ہوتی ہے تو براہِ مہربانی آپ ہمیں چھوٹی ڈبل روٹی بھیج دیا کریں۔ بیکری کے مالک نے معذرت کی کہ اس کے پاس صرف یہی سانچہ ہے۔ چھوٹا نہیں ہے تو فاطمہ جناح نے کہا کہ وہ چھوٹا سانچہ بنالیں۔ کیا پتا دوسرے لوگوں کو بھی اس کی ضرورت پڑجائے۔
قائداعظم جب بیمار تھے تو انہیں ہسپتال لے جارہے تھے۔ راستے میں ریلوے پھاٹک بند تھا، ابھی ریل آنے میں وقت باقی تھا۔ ان کی حالت کے پیش نظر ان کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی نے کہا کہ پھاٹک کھلوا دیتے ہیں۔ آپ کی طبیعت ناساز ہے۔ انتظار نہیں کرپائیں گے۔ مگر قائداعظم نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اگر میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو دوسرے بھی نہیں کریں گے۔
نواب صدیق علی خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:جارج ششم انگلستان کا بادشاہ تھا۔ قائداعظم اس وقت مذاکرات کے لیے لندن میں موجود تھے۔ ان کو بادشاہ کی طرف سے لنچ کا دعوت نامہ ملا جو کہ اس وقت ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ مگر قائداعظم نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ پوچھنے پر جواب دیا کہ یہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔
قائداعظم نے ایک صاحب سے مقدمہ لڑنے کی فیس وصول کی۔ مقدمہ کا فیصلہ توقع سے قبل ہوگیا تو آپ نے بقایا فیس یہ کہہ کر واپس کردی کہ چونکہ مقدمہ جلدی ختم ہوگیا ہے لہٰذا بقیہ فیس وصول کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔
قائداعظم کے ان واقعات کی روشنی میں ہم اپنے ملک پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ان کا طرزِعمل اس وقت کیا ہے۔ جس قوم کا رہنما اتنا بااصول، باکردار اور دیانت دار ہو، اس قوم کو تو خود اسی کی طرح بااصول، باکردار اور دیانت دار ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس میں کس کا قصور ہے؟
دوسروں پر نگاہ ڈالنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ صرف اپنا جائزہ لیں کہ ہم خود کتنے بااصول، باکردار اور دیانت دار ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک فرد قائد اعظم کی طرح سوچنے لگ جائے تو یہ پوری قوم قائد کی قوم بن سکتی ہے۔